خاتون قلمکار رشدہ شاہین پی ایچ ڈی کی ڈگری کی اہل قرار

خاتون قلمکار رشدہ شاہین پی ایچ ڈی کی ڈگری کی اہل قرار

سری نگر،20 فروری: یونیورسٹی آف حیدرآباد کے شعبہ اردو کی ریسرچ اسکالر اور نوجوان خاتون قلمکار رشدہ شاہین کو پی ایچ ڈی کی ڈگری کا اہل قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے اپنا مقالہ بعنوان ’اردو خودنوشت پر تقسیم ہند کے اثرات‘ شعبہ ھٰذا کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ بیگم کی نگرانی میں مکمل کیا ہے۔ ان کا وائیوا 6 دسمبر 2022 کو لیا گیا تھا جس کے ممتحن جموں یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر شہاب عنایت ملک تھے۔
قابل ذکر ہے کہ جدید ہندوستانی تاریخ خاص طور پر جدوجہدِ آزادی اور تقسیم ہند سے متعلق لٹریچر میں گہری دلچسپی رکھنے والی رشدہ شاہین فی الوقت معروف برطانوی آن لائن اخبار ‘دی انڈپینڈنٹ’ کی اردو سروس کے لیے بھارت سے فیچر لکھتی ہیں۔
دریں اثنا رشدہ شاہین نے یو این آئی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے مقالے پر کام کے دوران کم و بیش 150 خودنوشتوں کی ورق گردانی کی ہے جن میں سے لگ بھگ ایک سو اردو میں لکھی گئی ہیں اور بقیہ انگریزی، ہندی اور پنجابی سے اردو میں ترجمہ کی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے انہوں نے زائد از 50 ایسی خودنوشتوں، جن میں تقسیم ہند کے بارے میں تفصیل یا اختصار سے لکھا گیا ہے، کے تجزیہ کو اپنے مقالے میں شامل کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے قبل از آزادی ہند شائع ہونے والی چند اردو خودنوشتوں کا بھی تجزیہ اپنے مقالے میں شامل کیا ہے جن میں جدوجہدِ آزادی اور انگریزوں کے مظالم کی داستان بیان کی گئی ہے۔‘
رشدہ شاہین کہتی ہیں کہ آزادی کے بعد شائع ہونے والی اردو خودنوشتوں میں مصنفین نے نہ چاہتے ہوئے بھی تقسیم ہند سے متعلق واقعات کو نہ صرف جگہ دی ہے بلکہ کھل کر اپنے نقطہ نظر کو بھی پیش کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرا تحقیقی کام اپنے آپ میں منفرد و مختلف حیثت کا حامل ہے کیوں کہ میری تحقیق کے مطابق اردو خودنوشتوں میں تقسیم ہند کے تذکروں کے حوالے سے یہ پہلا کام ہے۔’
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’چوں کہ خودنوشتوں میں مصنفین اپنی ذاتی زندگی کے علاوہ اپنے زمانے کے حالات و واقعات کو بھی من و عن قلمبند کرتے ہیں لہٰذا میرا یہ تحقیقی کام اردو ادب کے ساتھ ساتھ جدید ہندوستانی تاریخ کو بھی کنٹریبیوٹ کرتا ہے جس کو میں اردو، انگریزی اور ہندی میں شائع کرانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔‘

یو این آئی

Leave a Reply

Your email address will not be published.