’خوشبو ئے یوسف‘:کشمیری ادب کے ممتاز شاعر محمو د گامی کے کلام کی انگریزی ترجمہ میں پہلی کتاب

’خوشبو ئے یوسف‘:کشمیری ادب کے ممتاز شاعر محمو د گامی کے کلام کی انگریزی ترجمہ میں پہلی کتاب

شوکت ساحل

سرینگرکشمیر یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں تعینات انگریزی ادب کے پروفیسر ، ڈاکٹر مفتی مدثرنے کشمیری ادب کے ممتاز شاعر محمود گامی کے2ہزار750سے زائد اشعار کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے کتابی شکل دی ہے اورکشمیر کے19ویں صدی کے ممتازشاعر محمود گامی کے کلام کودنیابھرمیںمتعارف کرایا ۔(MAHMUD GAMI۔۔۔Yusuf’s Fragrance) یعنی،’محمو د گامی ، خوشبوئے یوسف ‘ کے نام سے شائع کتاب 400صفحات پر مشتمل ہے ۔اس کتاب کو دنیا کے معروف اور با وقار پبلشنگ ادارے (Penguin Classics) نے شائع کیا ہے۔یہ کتاب محمود گامی کی شاعری کا پہلا انگریزی ترجمہ ہے۔

ڈاکٹر مفتی مدثرنے صوفی شاعر محمو د گامی کے کلام کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے،جس کا معاوضہ کوئی تمغہ نہیں ہوسکتا ۔ویسے بھی ابھی تک جموں وکشمیر کی انتظامیہ یا مرکزی حکومت نے ڈاکٹر مفتی مدثر کی کوشش کو نہ تو سراہا اور ناہی حوصلہ افزائی کی ،جوحکومتی بے حسی کو عیاں کرتا ہے ۔

ایشین میل ملٹی میڈیا کے ہفتہ وار پروگرام ’بزم ِ عرفان ‘ میں خصوصی گفتگو کے دوران پروفیسر مفتی مدثر نے کشمیری ادب کے ممتاز شاعر محمو د گامی کے کلام کو انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہا’ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا ،خاص طور شاعری کا ترجمہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے ‘۔ان کا کہناتھا کہ جب زبانیں ایکدوسرے سے کافی دور ہوجیسے (کشمیری اور انگریزی) تو یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہوجاتا ہے ۔انہوں نے کہا’انسانی تاریخ میںترجمہ کرنے کا عمل کافی قدیم ہے ،اگر انسانی تہذیب اورتاریخ میں ترجمہ نہیں ہوتا تو علم کا یہ سفر کامیابی سے ہم آہنگ نہیں ہوتا ۔‘

اطالوی ادیب،اتالو کلوینو(Italo Calvino) نے ایک مرتبہ نیویارک ٹائمز کے رپورٹر سے کہاتھا ’ترجمہ کے بغیر، میں اپنے ملک کی سرحدوں تک ہی محدود رہتا، مترجم میرا سب سے اہم اتحادی ہے، اس نے مجھے دنیا سے متعارف کرایا‘۔اسی فلسفے کو آگے بڑھا کرڈاکٹر مفتی مدثرنے محمود گامی کے کلام کو انگریزی زبان میں نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ کتابی شکل دے کر دنیا میں متعارف کرایا ،تاکہ ادب شناس کشمیری ادب سے واقف ہوسکیں۔

ڈاکٹر مفتی مدثرنے کہا ’ محمود گامی نے فارسی شاعری کے اثاثہ کو کشمیری ادب میں متعارف کرایا ،جو اُنکی علمی بصیرت کو بیان کرتا ہے ‘۔ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہناتھا ’ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محمود گامی نے کشمیری ادب کی آبیاری نہیں کی ،در اصل یہ اپنے آپ میں ایک جاہلانہ سوچ ہے ۔‘ان کا کہناتھا کہ محمو د گامی ،کشمیری ادب کے نہ صرف ممتاز شاعر تھے ،بلکہ اُنکے کلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عظیم علمی شخصیت تھیں ،کیوں کہ وہ فارسی اور عربی زبانوں میں کافی دسترس رکھتے تھے،جبکہ اُنکے مزاحیہ کلام میں بھی ایک پیغام چھپا ہوا ہے،محمود گامی نے کشمیری ادب کے متعدد اصناف میںطَبع آزمائی کی ہے۔‘

ان کا کہناتھا ’ محمود گامی کے بعد آنے والے کشمیری شعراءاسی ممتاز شاعر کے نقش ِ قدم پر چلے،کوئی بھی شخص صوفی شاعر محمود گامی کی شاعرانہ صلاحیتوں خصوصاً صوفیانہ کلام کے ساتھ ساتھ انکی کشمیری زبان و ادب کے لیے نثری خدمات کو فرا موش نہیں کرسکتا ہے ،اُنکی ادبی خدمات نا قابل ِ فراموش ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ محمود گامی کی مثنویاں خواہ وہ ”خسرو وشیرین ، لیلیٰ مجنوںیا یوسف زلیخا “ ہو ،دراصل فارسی مثنویاں ہیں ،جسے محمود گامی نے کشمیری زبان میں متعارف کرایا ،یہ اُنکی سب سے بڑی علمی اور ادبی کامیابی ہے ۔محمود گامی کے کلام کی انگریزی زبان میں شائع کتاب کے بارے میں ڈاکٹر مفتی مدثر کہتے ہیں ’کتاب کا عنوان یا نام (محمو د گامی ، خوشبو ئے یوسف ‘)دراصل محمود گامی کی مثنوی یوسف ۔زلیخاسے لیا گیا ہے ۔یہ کتاب چھ داستانی نظموں(مثنویوں) ،بعض نظموں اور اشعار پر مبنی ہے ، اس کتاب میں کل ملاکر محمود گامی کے2ہزار750اشعار ہیں جبکہ یہ کتا ب400صفحات پر مشتمل ہے ۔

ڈاکٹر مفتی مدثر کہتے ہیں ’میں نے ایک کوشش کی ہے تاکہ کشمیری ادب کا یہ سرمایہ اور اثاثہ دنیا تک پہنچ سکے ،مستقبل میں بھی ایسی کوششیںجاری رہیں گی ‘۔ایک دہائی قبل ڈاکٹر مفتی مدثر نے کشمیری نژاد فارسی شاعر ’ طاہر غنی کشمیری المعروف غنی کشمیری ‘ کے کلام کو بھی انگریزی میں ترجمہ کرکے کتابی شکل دی ہے ۔انگریزی ادب سے وابستہ اشخاص طاہر غنی کشمیری کے کلام کو (The Captured Gazelle)میں پاسکتے ہیں ۔ڈاکٹر مفتی مدثر نے چند ماہ قبل غنی کشمیری کے پورے دیوان کو تشریع سمیت اردو میں ترجمہ کیا ہے ۔ان کا کہناتھا ’شعبہ انگریزی کے کئی پروفیسر وں نے ایک ٹیم کی حیثیت سے کشمیر کے نامور ادیب مرحوم رحمن راہی کے کلام کو بھی انگریزی ترجمہ کیساتھ گلدستہ نظم کی شکل میں تیار کیا ہے۔‘

کشمیر کے انیسویں صدی کے ممتاز شاعر محمود گامی کو بنیادی طور پر کشمیری صوفی شاعری کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ محمود گامی1765 میں شاہ آباداننت ناگ (جو اب محمود آباد کے نام سے جانا جاتا ہے) کے گاو¿ں میں پیدا ہوئے۔ ان کی گیارہ مثنویاں، سینکڑوں نظمیں اور کشمیری شاعری صوفیانہ صدق واخلاص کی نمائندگی کرتی ہے، جس کی پیروی ان کے بعد تقریباً تمام شعراءنے اسلامی تصوف کے لحاظ سے کی۔ اگرچہ لل دید اور شیخ العالمؒ کی صوفیانہ اور نثری شاعری نے کشمیری شاعری کی بنیاد ڈالی۔ تاہم محمود گامی پہلے حقیقی شاعر ہیں،جنہوں نے متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.