سوچ بدلنا مشکل

سوچ بدلنا مشکل

یوم جمہوریہ قریب آتے ہی ماضی قریب میں عام لوگ ،سرکاری ملازمین اور سیاستدان زبردست خوش نظر آتے تھے ،وہ اس قومی دن کو ایک تہوار کے بطور مناتے تھے اور ہفتوں پہلے جوش وجذبہ دیکھنے کوملتا تھا اور شہروں وقصبوں کو سجایا جاتا ہے ۔

لیکن 1990ءکے بعد وادی میں اس طرح کی تقریبات کہیں کہیں نظر آتی تھیں جبکہ اکثر شہروں اور قصبوں میں ہڑتال اور بلیک آوٹ ہوتا تھا کیونکہ ایک طرف ملی ٹینٹوں کا دباﺅ اور دوسری جانب عام لوگ بھی علحیدگی پسندوں کے ساتھ ہاں میں ہاں ملاتے تھے جن میں بڑے بڑے سرکاری ملازمین ،بیوروکریٹ ،وزیر ،مشیر اور صحافی بھی شامل ہوتے تھے اور اگر کسی جگہ یوم جمہوریہ منایا بھی جاتا تھا، وہ بھی سیکورٹی حصار میں ہوتا ہے۔

اس طرح لگ بھگ تین دہائیوں تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا ۔بہرحال وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ہے بلکہ اس کا پہیہ گھومتا رہتا ہے ۔

جوں ہی مرکزی سرکار نے جموں وکشمیر سے خصوصی دفعہ ہٹائی اور اس ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا تو ایک دم بڑی تبدیلی رونما ہوئی، جو لوگ ترنگا کے نام پر برا بھلا کہتے تھے ،وہ آج اپنے دفتروں اور گھروں میں بھی اس ترنگے کو لہراتے ہیں۔

یہ دوسری بات ہے کہ ان میں اکثر لوگ اپنی سابقہ سوچ پر برقرار ہیں لیکن اپنی ملازمت اور روزگار کی سبیل کو لیکر انتظامیہ اور مختلف مین اسٹریم او ر وطن پرست تنظیموں کےساتھ ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔بہرحال ایل جی انتظامیہ اور مرکزی حکومت کو اس بات پر مبارک باد دینی چاہیے کہ وہ اس سرزمین پر لوگوں کو مین اسٹریم ڈگر پر واپس لانے میں کامیاب ہو گئی۔

مگر ان باتوں کا خیال بھی کرنا چاہیے کہ کہیں وہ ایسے لوگوں کی مدد اور حوصلہ افزائی تو نہیں کرتے ہیں جو کل کی تاریخ میں پھر وہی پرانی ڈگر پر ہونگے ،جو آج بھی اپنے بچوں اور دوست واحباب سے کہتے ہیں کہ ہم سب یہ دباﺅ میں کرتے ہیں۔

آپ لوگ خیال رکھیں ،کیونکہ سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ جو کل تک کچھ اور تھے آج وہ کچھ او ر ہیں اور کل وہ پھر کسی اور جگہ پر ہوں گے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.