سنڈے مارکیٹ : اب یہ بازار بھی سستا نہیں رہا

سنڈے مارکیٹ : اب یہ بازار بھی سستا نہیں رہا

شوکت ساحل

سرینگر: مہنگائی اور محدودمالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اہلیان کشمیر، وادی کے مشہور ومعروف ’سنڈے مارکیٹ ‘یعنی استعمال شدہ اشیا کے بازار کا رخ کرتے ہیں ،جو ہر اتوار کو سیاحتی استقبالیہ مرکز (ٹی آر سی) سے لیکر بٹہ مالو سرینگر تک سجا رہتا ہے۔کچھ برس تک اس بازار میں صرف استعمال شدہ سامان ہی فروخت کیا جاتا تھا ،لیکن اب یہاں صنعتی کار خانوں میں تیار ہونے والا ’تازہ دم ‘ سامان بھی اس بازار کی زینت بن چکا ہے۔

گوگہ ہر اتوار کو’سنڈے مارکیٹ‘ اپنی رونقیں بکھیر دیتا ہے، لیکن بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث یہاں دستیاب چیزیں اب غریب کی پہنچ سے دور ہونے لگیں۔ کشمیر وادی میں جاری موسم سرما میں گرم کپڑوں ،کمبلوں ،جوتوں اور دیگر سیکڑوں اقسام چیزوں کی خریداری کیلئے لوگ ’سنڈے مارکیٹ ‘کا رخ کرتے ہیں۔

دارلحکومت سرینگر میں ہر اتوار کو سجنے والا یہ مار کیٹ کم از کم 5کلومیٹر مسافت کی رابط سڑک پر سج جاتا ہے جبکہ اس کا محدود دائرہ اب کافی وسیع ہوگیا ہے۔جا بجا استعمال شدہ کپڑوں کے ڈھیر متوسط طبقے کے لوگوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔سنڈے مارکیٹ میں کپڑوں کی خریداری کیلئے آنے والے لوگ مہنگائی کا رونا روتے نظر آرہے ہیں، دوسری جانب سنڈے مارکیٹ کے دکاندار،تاجر یا بیو پاری بھی مال مہنگا ملنے کا شکوہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

سنڈے مارکیٹ میں استعمال شدہ گرم کپڑوں، جیکٹوں، جرسیوں کی قیمتیں سینکڑوں اور ہزاروں میں پہنچ گئیں۔ روپے کی گرتی کی قیمت اورڈالر کی اونچی اڑان نے سفید پوش اورغریب طبقے کا بھرم بھی چھین لیا۔ سفید پوش اور غریب افراد کا سردی سے تن کو بچانے کا سستا ذریعہ سنڈے مارکیٹ بھی مہنگابازاربن گیا۔سنڈے مارکیٹ میں بھی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں،کم پیسوں میں تن ڈھانپنے کیلئے سنڈے مارکیٹ میں خریداری کیلئے آ نے والے افراد مایوس ہوکر لوٹ جاتے ہیں۔

اگرچہ ہر اتوار کی طرح اس اتوار کو بھی سنڈے مارکیٹ کی رونق دوبالا تھی اور صرف شہری ہی نہیں بلکہ دور دراز دیہات سے آئے ہوئے لوگوں کی ایک کثیر تعداد سنڈے مارکیٹ میں اپنی من پسند چیزوں کا انتخاب کرنے میں مصروف تھی۔تاہم کئی افراد نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت سنڈے مارکیٹ میں مہنگائی کا راج ہے۔ان کا کہناتھا کہ پہلے50روپے سے لیکر100روپے تک ملنے والی جرسیوں،جیکٹوں کی قیمتیں 200سے700روپے تک جا پہنچیں،جبکہ اچھے استعمال شدہ گرم کوٹ کی قیمت کم سے کم 700سے1500روپے ہے۔گرم ملبوسات کے ساتھ ساتھ جوتوں کی قیمتیں بھی قوت خرید سے باہر ہیں، اب 100،200کی چیز ملنا خوش قسمتی کی ہی بات ہے۔

ایک اندازے کے مطابق حالات سازگار ہو تو ہر اتوار کو سجنے والے سنڈے مارکیٹ میں ایک کروڑ سے ایک کروڑ،20لاکھ روپے کی تجارت ہوتی ہے جبکہ کام کم ہونے کی صورت میں یہ تجارت 70سے80لاکھ روپے کے درمیان رہتی ہے۔

ماجد احمد نامی نوجوان نے کہا ’سنڈے مارکیٹ میں خریداری ضرورتاً کی جارہی ہو یا شوق کے تحت، سستی اور معیاری اشیاءکسے ناپسند ہوں گی اور پھر اگر وہ برانڈڈ بھی ہوں ،سنڈے مارکیٹ ایسی ہی جگہ ہے، جہاں ’امپورٹڈ‘ لیکن استعمال شدہ سامان سستے داموں مل جاتا ہے،تاہم اب یہاں بھی کچھ سستا نہیں رہا بلکہ میں تو یوں کہوں گا اب سنڈے مارکیٹ بھی سستا نہیں رہا‘۔

ظہور احمد نامی گاہک کا کہنا ہے’ سفید پوش اور غریب افرادکیلئے سنڈے مارکیٹ کا رخ کرنا مجبوری ہے ،لیکن امیر لوگوں کیلئے یہاں آنا شوق اور فیشن ہے ‘۔انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ عام طور پر سنڈے مارکیٹ کا نام سن کر استعمال شدہ سامان خاص طور پر گرم کپڑوں اور جوتوں کا خیال آتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ا س مارکیٹ میں جہاں خریداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، وہیں انتہائی ضروری اشیا کے ساتھ گھر کی آرائش، سجاوٹ، کھلونے، کاسمیٹکس،کچن ویئر، الیکٹرانکس، حتیٰ کہ قالین اور دیگر کئی قیمتی چیزوں نے بھی سنڈے مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا لی ہے،اب تو سامان فروخت والے ریڑھیاں نہیں لگاتے بلکہ سامان فروخت کرنے کیلئے قیمتی گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔

محمد مقبول نامی بزرگ شہری کا کہنا تھا ’ سنڈے مارکیٹ کو عوامی بازار بھی کہا جاتا ہے کہ لیکن نت نئی اقسام کی اشیاءاور ان کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے دور ہوتی جارہی ہیں‘۔چلتی پھرتی لائبریری میں اپنی من پسند کتاب کی تلاش کرنے والے آصف احمد کا کہنا تھا ‘ سنڈے مارکیٹ میں مطالع کرنے کیلئے اچھی کتابیں بھی دستیاب ہیں ،یہ تو اچھا ہے ،لیکن کاش اس سرمایہ کو محفوظ کیا جاتا ‘۔

ایک خاتو ن نے بتایا کہ وہ یہ سوچ کر آئی تھیں کہ یہاں کھلونے سستے ہوں گے ، ’لیکن یہاں بھی وہی حساب ہے، پھر کیا کریں، واپس ہی جائیں گے اور کیا کریں‘۔دکاندار جانتے ہیں کہ ان کے پاس سامان کس برانڈ کا ہے اور قیمتوں کا تعین وہ صرف سامان کی حالت ہی نھیں خریدار کے رکھ رکھاو¿ کو دیکھ کر بھی کرتے ہیں۔ پھر یہ خریدار پر منحصر ہے کہ وہ بھاو¿ تاو¿ کرنے کی کتنی اہلیت رکھتا ہے۔

دکانداروں کا کہنا ہے کہ قیمتیں زیادہ ہونے میں قصور ان کا نہیں ہے۔سجاوٹ کے سامان سے آراستہ ایک اسٹال میں اپنی بہن کے ساتھ سیلفی بناتے ہوئے ایک طالبہ نے بتایا کہ وہ یہاں سے اکثر ’کراکری‘ بھی خریدتی ہیں۔انہوں نے کہا’سامان چھانٹنا پڑتا ہے، اور قسمت اچھی ہو تو ایسی چیزیں بھی مل جاتی ہیں جنھیں دیکھ کے کوئی پرانا نہ کہے،ہاں اب تو یہاں نئی برینڈڈ چیزیں بھی دستیاب ہیں‘۔


سنڈے مارکیٹ خریداری کیلئے آنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ بازار اب پرانے امپورٹڈ سامان کا توہے لیکن سستے نہیں رہا۔ اب آپشنز تو بہت بڑھ گئے ہیں، ضرورت سے لے کے دلچسپی تک ہر شے میسر آجاتی ہے لیکن اب ٹی آر سی لیکر بٹہ مالو سرینگرتک پھیلے5 کلو میٹر مسافت والے سنڈے مارکیٹ کے سامنے سے بھی ایسے ہی گزر جاتے ہیں جیسے شیشے کی دکانوں میں سجی اشیا کے سامنے سے گزرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.