اگرچہ انتخابی فہرستو ں عمل پانچ ماہ بعد مکمل ہوا ۔ تاہم جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کو لیکر ابہام برقرار ہے ۔
اکثر سیاسی پارٹیاں یہ الزام لگا رہی ہیں کہ انتخابات منعقد کرانے کے حوالے سے مرکزی سرکار کمزور ہے جو کہ حقیقت نہیں ہے۔
کیونکہ گذشتہ لگ بھگ ساڑھے تین برسوں سے جموں وکشمیر میں ایل جی نظام چل رہا ہے اور اس دوران چند ایک حادثات کو چھوڑ کر مجموعی طور صورتحال بہتر نظر آرہی ہے ۔انتظامی کام کاج بہتر ڈھنگ سے چل رہا ہے ۔
رشوت خوری پر کسی حد تک قدغن لگی چکی ہے ،شاہی خرچات میں کمی آچکی ہے ۔دربار مﺅ کی منتقلی ،منسٹروں کی آوا جاہی ،اُن کے بنگلوں اور کوٹھیوں کے رکھ رکھاﺅ میں جو بھاری خرچہ ہوتا تھا آج کل وہ پیسہ عوامی کاموں پر صرف ہو رہا ہے ۔
اس طرح عوام کو سہولیات میسر ہو رہی ہیں ۔گاﺅں گاﺅں افسران حضرات میٹنگیں بلا کر عین موقعے پر کئی کاموں کی منظوری دیتے ہیں اور اسطرح سے عوامی خدمت ہو رہی ہے ۔
ایک بات عوامی حلقوں میں سامنے آرہی ہے کہ میونسپل کمیٹیوں اور کارپوریشنوں کے ذمہ دار ،منتخب کارپوریٹر اور بی ڈی سی ممبران ،پنچ اور سرپنچ اچھی خاصی کمائی حاصل کر رہے ہیں ،وہ مختلف کام کروانے کیلئے ان افراد کے ہاتھوں میں رشوت تھمادیتے ہیں ،جو کرسوں پر براجماں ہیں ۔
جس سے عوامی حلقوں میں ایل جی انتظامیہ کی نہ صرف بدنامی ہو رہی ہے بلکہ لوگ انتخابات منعقد کرانے کی مانگ بھی دہراتے ہیں ۔
جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے وہ روزگار کےساتھ ساتھ امن وخوشحالی کے طلب گارہیں ۔جہاں تک جموں وکشمیر میں بے روزگار ی کا تعلق ہے ،وہ روزبروز بڑھتی جارہی ہے ۔
ہزاروں ڈیلی ویجر اور کیجول لیبر اپنی بھرپور اجرت کی مانگ کر رہے ہیں جو انہیں برسوں سے نہیں مل رہی ہے، نہ ہی اُن کی نوکری مستقل ہو رہی ہے ۔
اگر ایل جی سرکار اس حوالے سے کوئی قدم اُٹھانے میں کامیاب ہوتی ہے تو پھر یہاں فی الحال کوئی انتخابات منعقد کرنے کی بات نہیں کریگا کیونکہ لوگ ان ہی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے عوامی حکومت کے منتظر ہیں ، جو وجود میں آجانے کے بعد پھر سب کچھ بھول جاتی ہے جیسا کہ سابقہ حکومتوں نے کیا ہے ۔