بچوں کو مشین یا روبوٹ نہ سمجھیں

بچوں کو مشین یا روبوٹ نہ سمجھیں

شوکت ساحل

وادی کشمیر میں ٹیوشن کا لفظ زبان ِ زد ِ خاص وعام ہے ۔اگر کوئی مہمان آپ کے گھر تشریف آور ہوتا ہے ،تو سلام ودعا کے بعد پہلا استفسار یہی ہوتا ہے کہ بچے ٹیشن جاتے ہیں یا نہیں ؟ٹیوشن کہاں لیتے ہیں ؟ٹیوشن لینے کے لئے کوچنگ مرکز جاتے ہیں یا کسی کے گھر جاتے ہیں ؟۔اس درمیان تعلیم کو تجارت بنانے والی سوچ نے بھی فائدہ اٹھا یا۔اس سوچ نے ہر چوراہے اورگلی گلی ٹیوشن مراکز قائم کئے ۔

حکومتیں بھی کہاں پیچھے رہتی ،انہوں نے بھی سپر۔50اور دیگر ناموں پر ٹیوشن اور کوچنگ کے رجحان کو پروان چڑھانے میں سرکاری مشینری کا استعمال کیا ۔

اب کوچنگ اور ٹیوشن کا رجحان اس قدر ہمارے سماج میں پیو ست ہوچکا ہے کہ دیہات میں رہنے والے شہریوں نے اپنے بچوں کو ٹیوشن دینے کے لئے شہر کا رخ کی کرنا شروع کردیا ہے ۔

بچوں کو ٹیوشن دینے کے لئے اُنہوں نے شہر میں عارضی سکونت اختیار کی ہوئی ہے ۔یا تو کرایہ پر کمرے لئے گئے ہیں یا پھر ہوسٹل میں بچوں کو رکھا گیا ہے ۔یعنی ٹیوشن کو لازمی قرار دیا گیا ہے ،کیوں کہ ایک ایسی دوڑ شروع ہوچکی ہے کہ بس سب کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دوڑ میں تنہا دوڑنے والا بھی اپنے ہی سائے کو پیچھے چھوڑنے کی تگدو میں ہے جبکہ یہ ممکن ہی نہیں ۔

آگے بڑھنا اور کامیابی سے ہم آہنگ ہونا ،اس کے لئے محنت کرنا کوئی گنا ہ یا جرم نہیں ہے ،لیکن فرسودہ روایات کو جنم دینا کہاں کی سلیقئہ عقل ہے ۔

ماضی پرنظر ڈالی جائے ،تو وہ بچے ٹیوشن لینے پر مجبور ہوتے تھے ،جو پڑھائی میں کسی طور کمزور ہوتے تھے ،لیکن اب ٹیوشن لینا مجبوری اور فیشن بن چکا ہے ۔

معاشی طور کمزور والدین کو بھی مجبوری کے عالم میں اس فیشن شو میں حصہ لینا پڑتا ہے ۔آج صورتحال وہاں جا پہنچی ہے کہ سوشل میڈیا (فیس بک ،ٹویٹر ،وٹس ایپ اور انسٹراگرام ) استعمال کرنے والے لوگ ان لوگوں کو جاہل ،گنوار اور اجڈ سمجھتے ہیں جو اس خیال سے جڑے ہوئے نہیں ہیں یا اسے استعمال نہیں کررہے ،ایسے لوگوں کو دقیانوسی ،دنیا سے کٹا ہو اسمجھا جارہا ہے۔

بہر حال ایسی بہت سی مثالیں آج ہمارے اردگرد ہیں جوکسی کے انوکھے خیالات کی بدولت وجود میں آئیں لیکن اب وہ انسانی زندگی کا اہم جز بن چکی ہیں، انہی میں سے ’ ٹیوشن اور کلاسز نظام ‘ ہے۔دراصل ٹیوشن ایک ایسی پبلک سروس ہے، جسے آج ہر خاص وعام مجبورا یا شوقیا لینے پر مصروف ِ عمل ہے۔

ٹیوشن کلاسز کامعاملہ یہ ہی کہ اسکول میں چھ گھنٹے پڑھائی کے بعد بھی مزید دو چار گھنٹے بچے کوپڑھائی کرنی ہوتی ہے ،تب کہیں جاکر بچہ سبق کو سمجھ پاتاہے۔

بچے پڑھائی میں خواہ کتنے بھی اچھے ہوں بغیر ٹیوشن کلاسز کے انکی کارکردگی ناقص سمجھی جاتی ہے۔

اس لئے مزید بہتری کے لئے بچے کا اسکول کے ساتھ ٹیوشن جانا لازمی تسلیم کرلیا گیا ہے ۔اس کی ضرورت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک تین سالہ بچہ کے لئے جب والدین اس کے لئے نرسری اسکول کا فارم بھرتے ہیں تو ساتھ ہی اسکے لئے ایک عدد ٹیوشن بھی تلاش کرتے ہیں تاکہ بچہ شروع سے اپنی پڑھائی کے لئے چاق و چوبند اور محنتی بنے۔

اور پھر کاپی ،کتاب اور بستوں کے بوجھ کے ساتھ تعلیمی دن کے روز اول سے ہی معصوم بچہ اسکول اور ٹیوشن کے میدان کارازار میں ناقابل فہم زبانوں کا بوجھ اٹھائے لہولہان ہوتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ اسکی تعلیم مکمل کرکے’کچھ ‘بن جانے تک جاری رہتا ہے۔

اس لئے عقلمند بنیں اور اپنے بچوں پر اضافی بوجھ نہ ڈالیں کہ اگر کسی کا بیٹا ڈاکٹر یا انجینئر بن گیا ،تو یہ ضروری نہیں آپ کا بچہ بھی ڈاکٹر یا انجینئر ہی بننے ۔اپنے بچوں کو مشین یا روبوٹ نہ سمجھیں اور نا بنائیں بلکہ وقت اور پیسوں کی قدر کرتے ہوئے کلاسز کے تھکادینے والے رٹّا سسٹم سے بچیں اور سیلف اسٹڈی کے ذریعے اپنے بچوں کے مستقبل کو سنہرا بنائیں۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.