بنیادی وجوہات۔۔۔۔۔

بنیادی وجوہات۔۔۔۔۔

چوری کی وارداتوں سے متعلق روز کوئی نہ کوئی خبر سامنے آتی ہے، پہلے ایام میں اس طرح کے واقعات وادی میں رونما ہوتے تھے لیکن چوری کے دوران مارپیٹ یا اہل خانہ کو زد کوب بنانا یا قتل کرنا ہرگز دیکھنے کو نہیں ملتا تھا ۔

بٹہ مالو،لال بازار کے علاوہ مختلف علاقوں میں اسطرح کی وارداتیں رونما ہوئیں۔ چوروں نے سینہ زوری کر کے گھر میں موجود لوگوں کو فلمی انداز میں ایک کمرے میں بند کر کے رکھا یا پھر کسی کو اکیلاپا کر قتل کیا ۔

ان وارداتوں میں نہ صرف مقامی لوگ شامل تھے بلکہ لال بازار میں اسطرح کی ایک واردات میں ایک غیر مقامی لڑکے کو بھی گرفتار کیا گیا ،جس نے گھر میں موجود عورت کو قتل کر کے وہا ں مختلف زیورات اور نقدی اُڑالی تھی ۔

بہرحال جموں وکشمیر پولیس کا جہاں تک تعلق ہے وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر کے چوری کی ان وارداتوں کو انجام دینے والوں کو دھیر سویر گرفتار کر لیتی ہے، لیکن جہاں تک جانی نقصان کا تعلق ہے، اُسکی بھرپائی کوئی نہیں کر سکتا ہے۔

آخر چوری کے ان وارداتوں میںروز بروز اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ اسکی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں ،کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہاں بے روزگاری کےساتھ ساتھ نوجوان نشے کے عادی ہو چکے ہیں جنہیں نشہ آور چیزوں کو حاصل کرنے کیلئے روپہ پیسہ درکار ہوتا ہے ،وہ چوری کرتے ہیں اُنکے سامنے کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہے ۔

جہاں تک قتل کرنے کا تعلق ہے قتل بھی وہی لوگ کرتے ہیں جن کا دماغ پوری طرح سے فیل ہوجاتا ہے ،یہ صرف نشے کی حالت میں ہی ممکن ہے ۔اکثر نوجوان جو نشے کے عادی ہوتے ہیں، اپنے گھر والوں ماں۔ باپ اور بہن بھائیوں کی مار پیٹ بھی کرتے ہیں کیونکہ اُنکا دماغ پوری طرح سے فیل ہو جاتا ہے ، وہ اپنے اور پرائے کی پہچان نہیں کرتے ۔

اگر ہمیں چوری ،ڈاکہ زنی اور قتل وغارت کے واقعات کو روکنا ہے تو پھر صرف پولیس ہی اس میں کچھ نہیں کر سکتی بلکہ ہر ایک اپنا رول ادا کرنا ہوگا ، قتل جیسی خبریں ہمیں اس وادی میں سننے کو نہیں ملتی تھی جو ایک زمانے میں صوفیو ں ،سنتوں اور شریف انسانوں کی مسکن تھی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.