پارٹیوںمیں جمہوری نظام

پارٹیوںمیں جمہوری نظام

بھارت پوری دنیا میں جمہوریت کا علمبردار ملک مانا جاتا ہے، جہاں ابتداءسے ہی جمہوری نظام کو فروغ دینے کی ہر کسی جماعت اور شخصیات نے کوشش کی ۔

مگر جب اکثر سیاسی پارٹیوں سے متعلق پارٹی نظریہ اور نصب العین کا تعلق ہے ،ان میں خاندانیت اور شخصی راج کو فروغ دینے کی ہمیشہ کوشش کی گئی جس کوبی جے پی نے تبدیل کرنے کی کوشش کی اور غالباً یہی وجہ ہے کہ آج کل ہر ایک سیاسی پارٹی اپنے صفوں میں سے خاندانی راج اور کنبہ پروری کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے ۔

کانگریس نے حال ہی میں پارٹی انتخابات عمل میں لاکر پہلی مرتبہ گاندھی خاندان کوباہر کا دروازہ دکھایا اور ایک عام لیڈر کوپارٹی کا صدر منتخب کیا گیا ۔

جہاں تک جموں وکشمیر کی سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے، ان میں بھی خاندانی راج کا عنصرپایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ بی جے پی کے نشانے پر رہیں اور لوگ پی ڈی پی ،این پی سی کو نفرت کرنے لگے جن کے لیڈران پارٹی صدارت افراد خانہ کے بغیر کسی کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے ہیں ۔

اس عوامی نفرت کو مٹانے کیلئے اب سیاستدانوں نے اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی بھرپور کوشش کی ہے جس میں ابھی تک صرف کانگریس پارٹی کا میاب ہوئی ۔

گذشتہ روز جموں وکشمیر کی سب سے مقبول پارٹی نیشنل کانفرنس کے صدر اور کئی مرتبہ وزیر اعلیٰ رہ چکے، ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے پارٹی صدارت سے استعفیٰ دینے کا اصولی فیصلہ لیا ہے اور اب اس سب سے پرانی اور عوامی سطح پر مقبول پارٹی کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں ۔

دیکھنا یہ ہے کیا نیشنل کانفرنس کسی عام لیڈر کو جو شیخ خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو پارٹی صدر کے عہدے پر فائز کرنے میں کامیاب ہو تی ہے کہ نہیں ۔

جہاں تک ڈاکٹر فاروق عبد اللہ کا تعلق ہے وہ ایک منجے ہوئے سیاستدان تصور کئے جاتے ہیں جنہیں عوامی سطح پر پسند بھی کیا جاتا ہے ،اب وہ بزرگ بھی ہوچکے ہیں اور صحت سے بھی کمزور ہیں ۔

ان کی جگہ جو دوسرا کوئی لیڈر برا جماں ہو گا وہ پارٹی کو مستحکم اور منظم رکھ سکتا ہے کہ نہیں؟ لیکن ایک بات تسلیم کرنی ہو گی کہ بی جے پی نے تمام پارٹیوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے پارٹیوں کے اندر جمہوری نظام قائم کرےں جس کا دعویٰ ہر سیاسی پارٹی کرتی ہے کہ جمہوریت اورجمہوری نظام کیلئے وہ میدان میں ہے ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published.