شوکت ساحل
یہ سیاست بھی عجیب عجیب رنگ دکھا تی ہے ۔ جموں وکشمیر خاص طور پر وادی کشمیر میں موسم سر دہے اور یخ بستہ ہواﺅں نے پوری وادی کو ہی اپنی آغوش میں لیا ہے جبکہ لوگ بھی قبل از وقت سردی کی شدت سے محفوظ رہنے کے لئے جدید اور روایتی تدابیر اپنا رہے ہیں ۔
اس بیچ سیاست کا درجہ حرارت اچانک بلند ہوا ہے ،کیوں کہ ہر سو پارٹی جلسوں کی بہار نظر آرہی ہے ۔
اس حقیقت حقیقت سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے جموں وکشمیر کے سیاستدان اقتدار کی لال پری سے محروم ہیں اور اُنہیں اُس دن کا انتظار ہے جب اُنکے ہاتھ میں یہ لال پری آ جائے گی۔
تاہم فی الوقت یہاں کے سیاستدانوں کو اُس اعلان کا انتظار بھی بڑی بے صبری سے ہے ،جس سے اُنہیں یہ لال پری حاصل ہوگی ۔
اب الیکشن کا بگل کب بجا دیا جائے گا؟ ،یہ تو الیکشن کمیشن آف انڈیا کے موڑ پر انحصار ہے ۔ہر کوئی جانتا ہے کہ جب یہ بگل بج جائے گا تب یہاں کے سیاستدان پورے اپنے شباب میں آکر اس پری کو حاصل کرنے کے لئے دعوے اور وعدوں کا سماع باندھ دیں گے۔یہ وقت کب آئے گا ،اس کے لئے انتظار تو ضروری ہے کیوں کہ ہمیں بھی کوئی اطلاع نہیں۔
آثار کی بات کی جائے تو عنقریب ایسے آثار کم ہی نظر آرہے ہیں ، مارچ2023 میں نئے تعلیمی سیشن کے تحت سالانہ امتحانات منعقد ہونے جارہے ہیں ،یعنی پولنگ مراکز ہی بند رہیں گی ۔
کلا س ورک کب اور کیسے شروع ہو گا ،اس پر ابہام برقرار ہے ،اس بریک میں انتخابات ہوں گے ؟۔۔خدا جانے ۔۔۔مرکزی وزراءبشمول مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں انتخابات ہوں گے اور وقت پر ہوں گے جبکہ پہلے اسمبلی انتخابات ہوں گے اور پھر ریاستی درجہ بھی بحال ہو گا ۔
سوال یہ ہے کہ جموں وکشمیر نئی پرانی سیاسی پارٹیاں پھر اسمبلی انتخابات اور ریاستی درجے کی بحالی کا مطالبہ کیوں کررہی ہیں ؟جب کہ مرکز پہلے ہی یہ واضح اعلان کرچکا ہے کہ جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات بھی ہوں گے اور ریاستی درجہ بھی بحال ہوگا ۔
سیاسی جماعتوں نے سرد موسم میں گرمی کا گولاکھاکر کیوں کر عوامی جلسوں کے محفلیں سجائیں ؟۔شاید اس لئے وہ عوام میں اپنی موجودگی کا احساس وقت وقت پردلاتے رہیں کہ ہم ہیں اور ہم وہ سب کچھ حاصل کریں گے ،جس سے یہاں کے عوام کا اعتماد بحال ہو ۔
کوئی کہتا ہے کہ ریاستی درجہ بحال کیا جائے اور اسمبلی انتخابات فوری طور پر منعقد کئے جائیں ۔
کوئی کہتا ہے کہ عوام کے حقوق کی پاسداری سب سے بڑا چیلنج ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ وہی عوام کے اصل ترجمان اور حقوق کا ضامن ہے اور اُن کا متبادل کوئی اور نہیں ۔کوئی ۵ اگست۹۱۰۲سے قبل کی پوزیشن کا مطالبہ کررہا ہے ،تو کوئی بیچ کا راستی تلاش کرنے کی وکالت ،یعنی عوام کی طرح سیاستدانوں میں بھی کنفیوژن ہے۔تاہم اچانک ٹھنڈ میں سیاسی بہار کیوں آئی ؟کیا اسمبلی انتخابات سے قبل ماحول تیار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،تاکہ عوام کے درمیان جانے کا ایجنڈا ملے یا پھر عوام کے درمیان رہنے کو ترجیح دی جارہی ہے ،تاکہ صحیح وقت پرصحیح فیصلہ کرکے عوامی منڈیٹ حاصل کیا جاسکے ۔سیاست کی سوچ ایسی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے ،کیوں سیاست کا محور عوام ہی ہیں ۔
عوام کے بغیر سیاست اور سیاستدانوں کا کوئی وجود نہیں جبکہ جمہوریت کی اصل روح بھی عوام ہی ہے ،کیوں کہ جمہوریت میں عوام ہی فیصلہ لیتے ہیں کہ اُن کی ترجمانی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں کون کرے ۔
اس تمام سیاسی گرماہٹ میںاپنی پارٹی جموں وکشمیر نے جیلوں میں مقید افراد کو قانونی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔یہ اعلان خوش آئندہ ہے ،کیوں کہ بہت سارے افراد ایسے بھی ہیں یا ہوسکتے ہیں ،جن کے پاس قانونی امداد کے لئے اخراجات نہیں ہوں گے ۔اپنی پارٹی کو اس معاملے میں کتنی کامیابی حاصل ہوگی ،یہ الگ بحث ہے کہ لیکن پہل اور سوچ قابل تعریف ہے ۔جیلوں میں مقید افراد جو گھناﺅنے جرائم میں ملوث نہیں ہیں ،کو رہا ہونا چاہیے اور اُنہیں اپنی آزادانہ زندگی گزار نے کا موقع دیا جانا چاہیے ۔
سیاستدانوں کا مقصد عوام کو راحت پہنچا نا ہونا چاہیے اور عوام کو راحت پہنچانے والے سیاستدان ہی عوامی عدالت میں کامیاب قرار دئے جاتے ہیں ،خواہ اُسکی پارٹی نئی ہو یا پرانی ۔
اگر بدلتی سوچ کیساتھ سیاست کی سیاست سوچ بھی بدل رہی ہے،تو کوئی حرج نہیں !اور اگر سوچ فرسودہ ہوتویخ بستہ ہواﺅں میں جلسوں کی بہار لانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔