بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
8.1 C
Srinagar

سیاست کے عجب رنگ ۔۔۔۔


شوکت ساحل

ماضی پر ایک نظر ڈالیں تو جموں وکشمیر خاص طور پروادی کشمیر میں جب بھی کوئی نیاسیاسی محاذ منظر پر عام آتا تھا ،توسیاسی مسئلے سے لیکر تعمیر وترقی ،عوامی فلاح وبہبود اور خوشحالی وامن کے بلند بانگ دعوﺅں کی گونج سنائی دیتی تھی ۔

اب جبکہ جموں وکشمیر کی جغرافیائی حالت اور سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ جموں وکشمیر اور لداخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

5اگست 2019کے مرکزی فیصلہ جات(غلط یا صحیح )کے بعد جموں وکشمیر میں متعدد نئے سیاسی محاذ منظر عام پر آچکے ہیں ۔نئے سیاسی محاذ ماضی کی غلطیوں کو سدھار نے کی وکالت کررہے ہیں ۔

یہ ماضی کے سیاسی سفر کو کنبہ پروری اور خاندانی واقربا پروری قرار دے کر جموں وکشمیر کو امن وخوشحالی اور ترقی کا گہوارہ بنا نے کے نئے دعوے اور وعدے کررہے ہیں ۔نئے سیاسی محاذوں کو قدیم سیاسی محاذ’فکسڈ میچ ‘ قرار دے رہا ہے ۔

تاہم نئے سیاسی محازوں کو بھی چیلنجز کا سامنا ہے اور وہ بھی اپنی سیاسی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں۔

کیوں یہاں سیاسی سوچ’ اعتبار اور بے ا عتبا ری‘کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے ۔ماضی کے نظام کا حصہ رہنے والے آج نئی صبح طلوع ہونے کا دعویٰ کرکے ماضی کے نظام کو کورپٹ نظام سے تعبیر کررہے ہیں ۔

یعنی وہ جس نظام کا حصہ رہے ،یا ان کاتعلق رہا وہ تب تک صاف وشفاف تھا ،اب اُنکی علیحدگی اختیار کرنے سے وہ نظام گھٹیا ہوگیا ۔

واہ ! واہ ! واہ ری سیاست ۔۔۔تو نے بھی عجب عجب رنگ دکھا ئے ،اعتباراور اعتباری کا یہ رنگ تو کافی نرالہ ہے ۔

کہنے کا مطلب عوام اعتبار کرے کس پر اور کس پر بے اعتباری کرے ۔ویسے عوام کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے اور اب سیاسی طور پر بھی اتنے بالغ ہوچکے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ صحیح ہے کیا اور غلط کیا ؟۔۔۔ عوام بعض اوقات خاموشی بھی اختیار کرتے ہیں اور آنکھیں بند بھی بند کرتے ہیں ۔

وہ سیاستدانوں کو لیڈر( راہنما ) بننے کا موقع بھی فراہم کر دیتے ہیں ۔۔۔کیوں کہ وہ جانتے ہیں موجودہ سیاستدانوں میں کوئی لیڈر (راہنما ) نہیں ہے بلکہ یہ سیاستدان توسیاست کار ہیں۔ان کا واحد مقصد ۔۔۔۔کاری۔۔۔ کاری کرکے۔۔۔۔۔عوام کو شیشے میں اُتار نے کا ہے ۔

جس میں یہ کامیاب بھی رہتے ہیں ۔گوکہ تبدیلی کا نعرہ بلند کیا جارہا ہے ،لیکن تبدیلی کے کوئی آثار نہیں ۔

جو ہوتا رہا ،وہی ہونے جارہا ہے ۔تجربہ گاہ وادی کشمیر میں سیاست کے ساتھ ساتھ دیگر تجربات بھی ہوتے ہیں ۔

یہ ماضی میں کتنے کامیاب رہے یا ہوئے؟۔۔۔راہل سوچتا ہے جہلم کے کنارے خوب تر جانتے ہیں ۔جہلم کے کنارے بیٹھے راہل صاحب کو تو سب کچھ پتا ہے ۔

اُنہیں سلیم کوثر کا یہ مشہور ِ زمانہ شعر بھی تو یاد ہے، جو وہ اکثر سناتے رہتے ہیں ۔”عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی۔۔۔۔۔میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے“۔

بنیادی طور پر مسئلہ اعتبار اور بے اعتباری کا ہی ہے ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img