بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
6.9 C
Srinagar

منصوبہ نیپا ل کا لیکن قابل ِ تعریف ۔۔۔

شوکت ساحل

سال2019 کے ماہ ِ جون میں جموں وکشمیر میں ’بیک ٹو ولیج ‘ مہم کا پہلا مرحلہ شروع ہوا تھا اور اب یہ مہم چوتھے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔اس مہم کا بنیادی مقصد سرکاری دعوے کے مطابق زمینی سطح پرعام لوگوں تک پہنچنا ہے ،تاکہ عوامی مشکلات ،مسائل اور مصائب کا ازالہ بروقت ہوسکے ۔

جموں وکشمیر میں اس مہم کے تحت سبھی20اضلاع کی پنچایتوں میں مختلف نوعیت کے پروگرام منعقد کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں ۔

اعلیٰ انتظامی افسران مہم کے تحت عام لوگوں کے درمیان جاکر گرام سبھاﺅں کا اہتمام کرتے ہیں ۔گرام سبھا ،پنچایتی نظام میں سب سے نچلے درجے کی اکائی ہوتی ہے، ان کے قیام کا مقصد دیہی آبادی کو مقامی سطح پرگرام سبھاﺅں کے ادارہ جاتی نظام کے ذریعے حکمرانی کے عمل میں حصہ لینے کے موقع فراہم کرانا ہے ۔

پنچایتی راج ادارے ہندوستان میں نچلی سطح کی جمہوریت کو مضبوط بنانے میں اہم اور کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ۔

پروگرام کے مقاصدکی وضاحت کرتے ہوئے سرکاری ترجمان کا کہنا ہے’بیک ٹو دی ولیج‘ پروگرام چار اہم اہداف پر توجہ مرکوز کر رہا ہے یعنی پنچایتوں کو متحرک کرنا، سرکاری اسکیموں اورپروگراموں کی فراہمی پر رائے اکٹھا کرنا، مخصوص اقتصادی صلاحیت کو حاصل کرنا اور دیہات کی ضروریات کا اندازہ لگانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام ہمارے تمام دیہی علاقوں میں مساوی ترقی کے مشن کو پہنچانے کی مشترکہ کوشش میں ریاست کے لوگوں اور سرکاری افسران کو شامل کرے گا۔بیک ٹو ولیج کی تاریخ کیا ہے؟ ۔تاریخ کے اوراق کی گردانی سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ منصوبہ تو نیپال کا ہے جس کو کافی پذیرائی ملی اور حکومت ہندوستان نے بھی اس پروگرام کو یہاں متعارف کرانے میں دلچسپی اور سنجیدگی دکھائی ۔

بیک ٹو ولیج کی تاریخ:نیپال میں1967 سے 1975 تک ”بیک ٹو ولیج “ (آﺅ چلیں گاﺅں کی او ر)کے عنوان سے ایک قومی مہم چلائی گئی۔ اس کا مقصد دیہی آبادی کی ترقی کو شہری آبادی کے برابر لانا تھا۔

اسے نیپال کی تاریخ میں ایک کامیاب پروگرام سمجھا گیا۔ اس پروگرام کی کامیابی سے بہت سے ممالک کی حکومتوں کو حوصلہ افزائی ملی اور ہماری اپنی حکومتوں کو بھی اس پروگرام کی کامیابی سے حوصلہ ملا اور ہماری اپنی حکومت نے بھی اپنا ’بیک ٹو ولیج‘ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ واقعی یہ ایک اچھا اقدام ہے۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ عام لوگوں کے لیے ریاستی بیوروکریسی تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہو تا ہے۔

تاہم یہ پروگرام اس خلیج کو ختم کررہا ہے ۔کامیابی ملے یا نہ ملے لیکن کوشش کرنا ہی کامیابی کی کنجی ہے ۔

بیک ٹو ولیج پروگرام سے ریاستی انتظامیہ دہی آبادی کی دہلیز پر آتی ہے جس کے نتیجے میں دیہی آبادی کو مساوی ترقی ملتی ہے۔

جموں وکشمیر میں پہلا مرحلہ جو 20جون سے شروع ہوا اور27 جون2019 تک جاری رہا ،اس میں پروگرام کو زبردست کامیابی ملی کیونکہ اس پروگرام میں مقامی لوگوں کی شرکت اچھی تھی اور جوش و خروش دیدنی تھا۔

اس پروگرام کا دوسرا مرحلہ جو25 نومبر سے 30 نومبر2019 تک جاری رہا جس میں دو محکموں پاور ڈیو لپمنٹ اور انفارمیشن ڈپارٹمنٹ نے بھی ’بہت بڑی کامیابی‘حاصل کی۔اس پروگرام کا تیسرا مرحلہ 2 اکتوبر سے12 اکتوبر2020 تک تھا۔

ان پروگراموں میں مقابلے منعقد کیے گئے جن میں اسپورٹس کٹس اور منریگا جاب کارڈ اور ایس سی اور ایس ٹی سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے۔

پی ایم کسان یوجنا اور پردھان منتری شرم یوگی مان دھن متعارف کروائے گئے۔ دیہات کی ضرورت کا جائزہ لیا گیا۔

پروگرام کی کوتاہیوں کی شکایات قلمبند کی گئیں۔اب جبکہ چوتھا مرحلہ سرکار کے مطابق کامیابی کیساتھ جاری ہے ۔

سوال یہ ہے کہ گزشہ تین مراحل کے دوران جو اہداف مقرر کئے گئے ،کیا اُن کو حاصل کیا گیا ؟یا یہ ایک طویل مشق اور عمل ہے ،جو ہر سال جاری رہے گا ؟دیہات کو ماڈل ولیج بنانے کے لئے علیحدہ پروگرام منعقد کیا جارہا ہے اور دیگر اسکیمیں بھی موجود ہیں ،پھر جو ماڈل ولیج قائم کئے گئے ہیں ،اُن میں اب بھی بنیادی سہولیات کا فقدان کیوں ؟۔اس حوالے سے کئی مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں ۔

ٹائیل بچھانے اور سولر اسٹریٹ لائٹس نصب کرنے سے دیہاتوں کو ماڈل ولیج میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے اور شہروں کے برابر ترقی ہوگی۔

صحت ،تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور جدید تقاضوں کے عین مطابق انٹر نیٹ کی سہولیات پر توجہ مرکوز کرنی کی ضرورت ہے ،تب جاکر بیک ٹو ولیج پروگرام کامیابی سے ہم آہنگ ہوگا ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img