منگل, دسمبر ۱۶, ۲۰۲۵
9.1 C
Srinagar

سکون کی تلاش ۔۔۔


شوکت ساحل

آج کل ہر کوئی شخص پریشان اور مشکلات کے بھنور میں پھنساہوا نظر آتا ہے ۔جس کسی سے بھی بات ہوتی ہے ،تو وہ پریشانیوں کا ذکر کرتا ہے اور یہی کہتا ہے کہ سکون ِقلب نہیں ہے ۔

نہ گھر میں سکون اور ناہی باہر سکون۔۔۔ اور اس سکون کی مسلسل جستجو ،آر زو اور جدوجہد کرتا رہتا ہے۔

کوئی اس کو حاصل کرنے کے لئے صبح وشام عبادت میں مصروف رہتا ہے ،کوئی یہ سکون اولیائے اللہ اور صوفی بزرگان دین کی درگاہوں پر تلاش کرتا ہے ،تو کوئی انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی چمک دمک میں غرق رہتا ہے،کوئی ٹیلی ویژن میں تلاش کرتا ہے ،تو کوئی ریڈیو کی آواز میں تلاش کرتا ہے ۔

دراصل یہ کوئی مسلسل سکون کی تلاش ہے اور یہ عمل یا مشق جاری ہے ۔بعض تو مایوسی کا شکار ہو کر یہ بھی کہتے ہیں کہ اب سکون کی تلاش موت کی آخری ہچکی پر ختم ہوگا ،لیکن ایسا بھی نہیں ،ہم نے خود کواس قدر فروعی مسائل میں خوامخواہ الجھا رکھا ہے کہ ہم دن ورات سکون کی تلاش میں ہے ۔

کہتے ہیں کہ ”گھر“ انسانی زندگی کی بنیادی اکائی ہے۔ یہاں انسان پیدا ہوتا ہے اور پرورش پاکر اپنی سماجی، معاشی، دینی و دیگر طرح کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لائق ہوتا ہے۔ پیار و محبت، باہمی الفت اس کی بنیاد ہیں۔

اسی کے سہارے وہ پلتا بڑھتا ہے اور اسی کے سبب وہ آئندہ نسلوں کی پرورش اور تربیت و تعلیم کی ذمہ داری اٹھاتا اور اس کے لیے ہر قسم کی مشکلوں اور پریشانیوں سے لڑتا ہے۔

یہ ”گھر“ انسان کے لیے ایسی پناہ گاہ ہے جسے وہ دنیا کی تمام جسمانی، ذہنی اور عملی پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچنے کے لیے تلاش کرتا ہے۔

گھر انسان کے لیے بہت بڑی نعمت اور زندگی کے لیے بیش قیمت چیز ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:’اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکون کی جگہ بنایا۔

‘اگر ہم اپنے آس پاس کے ماحول کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہمارے سماج میں کتنے خاندانوں کو یہ گھریلو سکون حاصل ہے تو اندازہ ہوگا کہ بے شمار افراد اور خاندانوں کے لیے ان کے گھر جائے سکون کی بجائے جہنم کدہ بنے ہوئے ہیں، جہاں وہ خواہی نہ خواہی جیل کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

خود کشی کے بڑھتے واقعات، بچوں اور نوجوانوں کا گھروں سے فرار ہوکر مجرمانہ زندگی اختیار کرنا، رشتوں ناتوں کی ٹوٹ پھوٹ، طلاق کے واقعات، بھائی بھائی اور باپ بیٹے کے درمیان نفرت و دشمنی اور قریب ترین رشتہ داروں سے قطع تعلق ایسی چیزیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ اب گھروں میں لوگوں کو وہ سکون حاصل نہیں جو کبھی پہلے ہوا کرتا تھا۔

اس ترقی یافتہ دور نے انسان پر ناقابلِ برداشت معاشی ومعاشرتی بوجھ ڈال کر اسے ضروریات زندگی کی تکمیل کا غلام بنادیا ہے اور اس چیز نے اسے خود غرض، مفاد پرست بناکر اس سے وہ اقدار چھین لی ہیں جو خاندان اور گھر کے استحکام اور سکون و اطمینان کا ذریعہ بنی تھیں۔ چنانچہ مشرق و مغرب میں مضبوط و مستحکم خاندان اور آپسی محبت و الفت اور ایک دوسرے کے کام آنے کا تصور اس حد تک مدھم پڑگیا ہے کہ ہر شخص تنہائی، بے مروتی کا شکار ہوگیا ہے۔

اپنے گھروں کو سکون و اطمینان کا مرکز بنانا اور اسے مضبوط و مستحکم رکھنا اور کرنا ہمارا دینی، انفرادی،معاشی اور معاشرتی ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم کس طرح اپنے گھروں کو اپنے اور اپنے اہل خاندان کے لیے ”سکون کی جگہ“ بناسکتے ہیں اور مشرق و مغرب میں پھیلی خاندانی پھوٹ اور معاشرتی بگاڑ سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔اپنے گھروں کو پرسکون بنانے کے لیے مثبت رہنا ضروری ہے اور ضرورت صرف توجہ اور ترجیح کی ہے۔

ترجیح اسی معنی میں کہ ہم اپنی معاشی، تجارتی یا دفتری زندگی میں اپنے گھر کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں یا دوسری چیزوں کو اور یہ کہ کیا ہم ان دونوں کے درمیان توازن پیدا نہیں کرسکتے؟!تواز ن پیدا کرنے کے لئے ہمیں شکرگزاری اور ایکدوسرے کی مدد کے رجحان کو پروان چڑھانا چاہیے ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img