
شوکت ساحل
سری نگر جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا تھا کہ سری نگر میں بہت جلد میٹرو پروجیکٹ پر کام شروع ہوجائے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ اس مجوزہ پروجیکٹ کو انتظامی کونسل نے منظوری دے کر مرکزی حکومت کو بھیج دیا ہے۔
منوج سنہا نے رواں برس سرینگرایک تعمیری پروجیکٹ کا افتتاح کرنے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا تھا’یہاں بہت کچھ نیا نظر آئے گا۔ بڑی چیز میں کہنا چاہتا ہوں۔ سری نگر میں آنے والے دنوں میں میٹرو بنے گا۔
انتظامی کونسل نے اس کو منظوری دے کر بھارت سرکار کو بھیج دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ بھارت کی مرکزی کابینہ اس کو جلد از جلد منظوری دے گی‘۔
ان کا مزید کہنا تھا’سری نگر اور جموں میں سمارٹ سٹی پروجیکٹس پر کام جاری ہے۔ سری نگر میں کار پارکینگ سہولیات میں آنے والے دنوں میں مزید بہتری لائی جائے گی‘۔ترقی کے لئے امن لازمی ہے ،اس سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
گزشتہ کئی برسوں سے وادی کشمیر میں حالات پرسکون نظر آرہے ہیں،اکا دکا ہلاکتوں کے واقعات بھی پیش آرہے ہیں اور سیکیورٹی کے نئے چیلنجز بھی پیدا ہورہے ہیں ۔
تاہم تعمیر وترقی کا سلسلہ بھی جاری ہے ،لیکن ترقی کی رفتار اس قدر سست ہے کہ سمارٹ سٹی کا خواب نئی نسل میں شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نظر نہیںآرہا ہے ۔
اگر سمارٹ سٹی منصوبہ ’ایل ای ڈی ‘ نصب کرنا اور چند ایک دیواروں کو رنگ وروغن سے سجانا ہے ،تو یہ خانہ پوری کے مترادف ہے ۔
سمارٹ سٹی میں رابطہ سڑکیں کلیدی اہمیت کی حامل ہیں کیوں کہ اقتصادی ترقی میں رابطہ سڑکیں اہم اور کلیدی حیثیت رکھتی ہیں ۔
شہر سرینگر میں گپکار سے لیکر سیول سیکریٹریٹ کی سڑک کو چھوڑ کر شہر کی سبھی چھوٹی بڑی رابطہ سڑکیں خستہ حال ہیں ۔منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے ۔
تنگ سڑکیں بھی ٹریفک نظام کو درہم برہم میں اپنا رول ادا کرتی ہیں ۔میٹروچلانا خوش آئند قدم ہے ،لیکن میٹرو منصوبے کی عمل آوری کیساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کی طرف توجہ مرکوز کرنا لازمی ہے ۔
سڑکوں پر میکڈم بچھانے کا عمل فوراً سے بیشتر شروع کیا جانا چاہئے ۔فٹ پاتھوں کی حالت درست کی جانی چاہئے ۔ آج بناﺅ اور کل توڑو کی پالیسی اپنانے ے غیر منصوبہ بندی عیاں ہوتی ہے ۔
اس حوالے سے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے ۔جیسے کہ شہر میں کوئی ایجنسی فٹ پاتھوں کی تعمیر کرتی ہے ،تو چند ماہ یا اگلے سال کوئی اور ایجنسی ان کو نئے سرے سے تعمیر کرنے منصوبہ پیش کرتی ہیں ۔
سڑکوں کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کے لئے کہیں بنڈ بندی کی جاتی ہے ،تو اگلے روز ہی اس کو توڑنے کا عمل شروع ہوتا ہے ۔اس کی کئی مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں ۔
مولانا آزاد روڑ اور ریذ یڈنسی روڑ دونوں رابطہ سڑکوں پر بنائے گئے فٹ پاتھوں کو توڑ دیا گیا اور اب نیا تعمیری منصوبہ ہاتھ میں لیا گیا ہے ۔
اسی طرح لالچوک میں تاریخی گھنٹہ گھر کی کنکریٹ پارک کو بھی سمارٹ سٹی کے دائرے میں لاکر توڑ دیا گیا ،اب یہاں بھی کچھ نیا ہونے جارہا ہے ۔ی
عنی منصوبہ بندی برسوں کے لئے بلکہ وقتی کی جارہی ہے ،جو خزانہ عامرہ پر بوجھ کے مترادف ہے ۔بناﺅ اور توڑو کی پالیسی سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے ۔
محکمہ جات کے درمیان روابط اور تال میل کو ترجیح دی جائے ۔غیر منصوبہ بندی سے نہ صرف فنڈس کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ تعمیراتی پروجیکٹ بھی پائیہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے ہیں ۔بدلتی دنیا میں دور رس منصوبہ بندی سے تعمیر وترقی ممکن ہوسکے گی ۔





