بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
8.7 C
Srinagar

سیاسی ملاقاتیں اور یاترا ۔۔۔۔

 

تحریر:شوکت ساحل

”ہندوستان کی وحدانیت اس کی طاقت ہے۔ ہندوستان جس تنوع پر فخر کرتا ہے اس پر فخر کرنا ضروری ہے۔ حملہ آوروں نے اسے مختلف انداز سے دیکھا۔

دنیا سمجھتی ہے کہ ہم مختلف ہیں ، اس لئے ہم الگ ہیں جبکہ ہندوستان۔ تنوع میں اتحاد کہتے ہیں، یہ ملک کی خاصیت ہے، جو زمانوں سے موجود ہے۔

ہم ہمیشہ سے ایک رہے ہیں، جب ہم اسے بھول گئے تو ہم نے اپنی آزادی کھو دی، اس لیے ہمیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ہم ایک ہو جائیں اور اپنے ملک کو مضبوط بنائیں۔

“ان تاثرات کا اظہار آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے شیلانگ میں ایک تقریب کے دوران کیا تھا- انہوں نے کہا تھاکہ ہم سب کو اس اتحاد کے لیے کام کرنا ہے۔

موہن بھاگوت نے کہا تھاکہ ہم قدیم زمانے سے ایک قدیم قوم ہیں، لیکن اپنے تہذیبی نصب العین اور اقدار کو بھول جانے کی وجہ سے ہم نے اپنی آزادی کھو دی جبکہ اس ملک کی ابدی تہذیب کی اقدار کو ہمارے ملک سے باہر کے لوگوں نے ہندوتوا کا نام دیا تھا۔

ہم ہندو ہیں، لیکن ہندو کی کوئی خاص تعریف نہیں، حالانکہ یہ ہماری پہچان ہے۔ بھارتیہ اور ہندو دونوں اصطلاحات مترادف ہیں۔

یہ حقیقت میں ایک جیو کلچرل شناخت ہے‘۔ایک طرف آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کو جوڑ نے کی وکالت کرتے ہیں ،تو دوسری طرف کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے ’بھارت جوڑو یاترا ‘ شروع کی ۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بابائے قوم ماتما گاندھی نے بھی ملک کو یکجا رکھنے اور امن کے لئے بھو ک ہڑتال کی اور یاترا نکالی جبکہ بھارت جوڑو یاترا کے مقاصد بھی ماتما گاندھی کی مہم کی مانند ہے ۔

گزشتہ ہفتے آر ایس ایس کے سربراہ نے مسلم رہنماﺅں اور دانشوروں سے اچانک ملاقات بھی ۔یہ سب سرگرمیاں ممکنہ طور پر سیاست کا ایک حصہ ہوسکتی ہیں ،کیوں کہ سیاست سرگرمیوں کا ہی دوسرا نام اور عوامی ،سماجی اور اقتصادی معاملات کو زیر بحث لاکر ہی سیاست ہوتی ہے ۔

اب یہ الگ بحث ہے کہ سیاست مثبت اور عوام کو راحت پہنچا نے کے لئے ہورہی ہے ،یا منفی ۔۔۔۔تاہم ملک کی موجودہ سیاسی نبض کو پکڑ کر یہی محسوس ہوتا ہے ،ملک کی معاشرتی ،جمہوری اور سیکولرازم صورت ِ حال میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور کہیں کہیں اس کی یگانیت کا پیچ یا تو مکمل طور پر پھنس گیا ہے ،یا پھر اتنا ڈھیلا ہوگیا ہے ،اس کو کسنے کی ضرورت ہے ۔

گزشتہ کچھ عرصے سے جو سرگرمیاں ملک بھر دیکھنے کو مل رہی ہیں ،اُس سے یہی اخز ہوتا ہے ،سیاست نے ملک کو مذہب ،ذات پات ،رنگ ونسل اورلسانی کی بنیاد پر منقسم کیا ہے ۔اگر یہ سیاست ذاتی مفادات اور انتخابی فوائد کے لئے ہورہی ہے ،تو یہ ملک کے مستقبل ،تحفظ اور سلامتی کے لئے با عث خطرہ بھی ہے ۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں گذشتہ برسوں میں مسلمانوں کو منظم نفرت انگیز مہم اور مشکلوں کا سامنا رہا ہے۔ٹی وی چینلوں، تقریروں اور سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ بھارت کے مسلمان اس وقت سیاسی اور سماجی اعتبار سے شدید دباو¿ کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ان حالات میں آر ایس ایس کے سربراہ کی اچانک مسلم دانشوروں سے سے ملاقات اور مسجد اور ایک مدرسے کا دورہ یقیناً معنی خیز ہے۔

اس مرحلے پر ان ملاقاتوں سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ ملک میں سنہ2024 میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔

حکمراں بی جے پی نے ان انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی اب بھی ایک مقبول رہنما ہیں لیکن اس بار حزب محالف کی جماعتیں بی جے پی کے لیے ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

ایک متحدہ اپوزیشن انتخابات میں مودی کے لیے سخت مشکلیں پیدا کرسکتی ہے۔ اس سیاسی پس منظر میں سنگھ کے سربراہ کی مسلمانوں سے بات چیت کا راستہ کھولنا اور بھی معنی خیز ہو گیا ہے۔

ملک کو متحد د رکھنے کے لئے کوششیں ،خواہ وہ ملاقاتوں کی صورت میں ہوں یا پھر یاترا کی شکل میں ،ایک صحت مند عمل ہے ۔

لیکن اگر یہ 2024کے انتخابات میں جیت سے مشروط ہیں ،تو آگے کا سفر کیسے طے ہوگا ،یہ کہنا انتہائی مشکل ہوگا ۔

ایسے میں ملک کے سیاسی رہنما ﺅں اور دانشوروں کو انتخابی جیت کے لئے نہیں بلکہ ملک ،عوام ،خوشحالی ،امن اور ترقی کے لئے ایکدوسرے کے وجود کو برداشت کرنا ہوگا ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img