جموں وکشمیر خاصکر وادی میں بے روزگاری کا رونا سال بھر چالو رہتا ہے اور اس سلسلے میں سیاستدان ،صحافی ،پڑھے لکھے بے روزگار روز کوئی نہ کوئی بیان داغ دیتے ہیں اور اسطرح حقیقت کو نظر انداز کر کے بنیادی وجوہات کو درکنار کر دیتے ہیں ۔
جموں وکشمیر میں اس وقت لگ بھگ 6لاکھ کے قریب پڑھے لکھے نوجوان(لڑکے اورلڑکیاں) دونوں گھروں میں بے کار بیٹھے ہیں اور ہمیشہ سرکار اور انتظامیہ پر یہ الزام عائد کردیتے ہیں کہ وہ اُنہیں روزگار نہیں دے رہی ہے ۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ سرکار اور انتظامیہ کیلئے یہ ہر گز ممکن نہیں ہے کہ وہ سب لوگوں کوسرکاری نوکری فراہم کر سکے اور نہ ہی سارے لوگ اپنی تجارت چالو کر سکیں کیونکہ ہر تجارت کیلئے تربیت اور تجروبہ ہونا بے حد لازمی ہے ۔
اگر وادی کشمیر کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں وصاف ہے کہ وادی کے اکثر صنعتی یو نٹ بے کار ہو کے رہ گئے ہیں ۔
تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ جہاں اس کے لئے غیر موزون پالیسی ذمہ دار ہے، وہیں یہ صنعت کار بھی نابکار اور ناتجروبہ کار ہیں جنہوں نے مختلف سرکاری وغیر سرکاری مالی اداروں سے لاکھوں کروڑوں روپے قرض لیکر راہ فرار اختیار کی ہے ۔کسی نے اپنے لئے عیش وعشرت کا سامان تیار کیا ،عالی شان بنگلے ،زمین اور جائیدادیں ان رقومات سے خرید ی ہیں اور کسی نے شادی بیاہ کی تقریبات اور کھان پان اور قیمتی گاڑیوں پر یہ رقومات صرف کئے ہیں ،نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے ۔
اس بات میںبھی کوئی دورائے نہیں ہے کہ 30برسوں کے نامساعد حالات کی وجہ سے بھی یہاں کے کارخانہ دارحضرات مقروض ہو گئے ۔
جہاں تک بے روزگاری کا تعلق ہے اسکی سب سے بڑی وجہ کہ یہاں کے نوجوان کام کرنے کا ہنر بھول گئے ہیں وہ بغیر محنت کے راتو ں رات کروڑ پتی بننے کے خواب دیکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے گذشتہ 3دہائیوں میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہاں کے بیشتر سرمایہ دار راتو ں رات کروڑ پتی بن گئے ۔
بہرحال نوجوا ن طبقوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کیلئے محنت ومشقت کرنی ہوگی ،سرکاری نوکریوں کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر کے اپنا پیٹ پالنا چاہیے اور آرام طلبی کو خیر باد کرنا چاہیے ۔سرکاراور انتظامیہ کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ ایسے نوجوانوں کی بغیر کسی طوالت کے قرضے واگذار کر نے کیلئے پالیسی مرتب کرے جس میں آسانی ہو ۔دستکاری کو بھی بڑھاوا دینا چاہیے کیونکہ یہ ضروری ہں کہ ایک پڑھا لکھا نوجوان دستکار نہ بنیں ۔تعلیم انسان کی بہتر سوچ کیلئے حاصل کی جاتی ہے نہ کہ مالدار بننے کیلئے۔




