بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
5.1 C
Srinagar

نفع۔ نقصان کا سیاسی کھیل ۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

دفعہ370کی تنسیخ کے بعد جموں وکشمیر میں سیاسیات کا منظر نامہ یکسر بدل چکا ہے ۔نئی سیاسی پارٹیاں وجود میں آچکی ہیں جبکہ مزید سیاسی لیڈران نے نئی سیاسی پارٹیاں بنانے کا یا تو اعلان کر رکھا ہے یا پھر ارادہ رکھتے ہیں ۔

کشمیر سے دلی تک سیاسی رہنماﺅں نے عوامی حقوق کے تحفظ کا نیا نعرہ بند کر رکھا ہے اور جموں وکشمیر میں ایک نئی سیاسی بحث شروع ہوچکی ہے ۔

حال ہی میں جموں و کشمیر حد بندی کمیشن نے نئی حد بندی میں 7 حلقوں کا اضافہ کیا ہے جس میں صوبہ جموں کو6 اور کشمیر کو صرف ایک نشست دی گئی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کی سابق جج جسٹس رنجنا پرکاش ڈیسائی کی قیادت والے حد بندی کمیشن نے جموں و کشمیر کی نئی حد بندی کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کردی۔

اس کے مطابق مرکز کے زیر انتظام اس علاقے کی اسمبلی کی 83 سیٹوں میں 7کا اضافہ کرکے اب 90 کردیا گیا ہے۔

جن 7 سیٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے ان میں سے6 صوبہ جموں میں کی گئی ہیں جس کے ساتھ ہی صوبہ جموں میں سیٹوں کی تعداد 37 سے بڑھ کر43 ہوگئیں۔ کشمیر میں صرف ایک سیٹ کا اضافہ کیا گیا ہے اور یہاں کی سیٹیں 46 سے بڑھ کر 47 ہوگئیں۔

حد بندی کمیشن نے کشمیری تارکین وطن کمیونٹی کے لیے اسمبلی میں ایک خاتون سمیت کم از کم دو نشستیں مختص کرنے کی سفارش کی ہے۔

کمیشن نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے آنے والے رفیوجیوں کے لیے بھی اسمبلی میں نمائندگی دینے پر مرکز سے غور کرنے کی سفارش کی ہے۔

کمیشن نے پہلی مرتبہ درج فہرست قبائل کے لیے 9 اور درج فہرست ذاتوں کے لیے 7 سیٹیں ریزرو کرنے کی سفارش کی ہے۔

نئی حد بندی کے بعد جموں و کشمیر کے 5 پارلیمانی حلقوں میں اب ہر ایک میں18-18 اسمبلی حلقے ہوں گے۔

چونکہ رپورٹ کو نوٹیفائی کردیا گیا ہے، اس لیے اب تمام نگاہیں الیکشن کمیشن اور مرکزی حکومت پر لگی ہیں کہ وہ جموں و کشمیر میں انتخابات کا اعلان کب کرتی ہے۔

گوگہ الیکشن کمیشن نے نظر ثانی ووٹر فہرست مکمل کر نے کی تاریخ رواںبرس نومبر کر رکھی ہے ،ایسے میں رواں برس اسمبلی انتخابات منعقد ہونا ممکن نہیں ۔

کیوں کہ دسمبر میں برفباری اور چلہ کلان کی شدید سردی ہوتی ہے ،ایسے میں انتخابات اس برس ہو نا تقریبا ً تقریباً ناممکن ہے ۔

اگلے سال یہ انتخابات کب اور کس وقت ہوں گے،یہ کہنا بھی ممکن نہیں ۔کیوں کہ جموں وکشمیر کے موسم کی طرح یہاں کے حالات سے متعلق کوئی حتمی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ہے ۔

تاہم نئے پرانے اور قد آور سیاسی رہنماﺅں نے اپنی سرگرمیاں اس قدر تیز کردی ہے ،ایسا لگ رہا ہے کہ ایک ۔دو ماہ میں انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔

ان سیاسی رہنماﺅں نے جموں وکشمیر کے عوزام کے حقوق ،روزگار اور اراضی کے تحفظ کا نیا نعرہ لگایا ہے اور یہی اگلے اسمبلی انتخابات کی مہم بھی ہو گی ۔

ویسے ہمارے بعض سیاسی رہنما جب کہتے ہیں کہ وہ سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں یا سیاست صرف عوام کی خدمت کے لئے کرتے ہیں تو دونوں باتیں ہی عجیب لگتی ہیں لیکن چونکہ وہ ہمارے سیاسی’رہنما‘ہیں، اس لئے ان باتوں پر اعتراض کرنا یا ان میں اختلافی نکتے نکالنا بالکل ’مناسب‘نہیں ہے۔

اس لئے آج تک ہم سب’ عوام ‘ ان باتوں پر یقین کرتے ہیں۔ اگرچہ عملی طور پر ایسا نہیں دیکھا گیا بلکہ ’ معاملات‘ان باتوں یا دعوﺅں کے برعکس نظر آتے ہیں۔

حقیقت میں ہمارے سیاسی’رہنما‘سیاست کو نفع نقصان اور ہار جیت کا کھیل سمجھ کر کھیلتے ہیں۔ ’ جمہوریت‘ کے نام پر عوام کے ساتھ بھی کھیل کھیلا جاتا ہے اور اس کھیل میں ہمیشہ ہار عوام کی ہوتی ہے۔ یہی سیاسی رہنما جمہوریت کے نام پر جب مسند اقتدار پر براجمان ہوجاتے ہیں تویہ چلا ۔وہ چلا کی مانند اپنی سیاسی گاڑی آگے بڑھا تے ہیں ۔

اس نئے سیاسی کھیل میں ہار چکی عوام بھی اب سیاسی بالغ ہوچکی ہے ۔اُنہیں معلوم ہے کہ پس ِ پردہ اور سرِ پردہ کیا کچھ ہورہا ہے ۔(میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے ۔۔سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے)۔

سیاسی رہنماﺅں کو اب اس سیاسی کھیل کے پرانے اصول اور قواعد وضوابط تبدیل کرنے ہوں گے ،کیوں کہ زمانہ سوشل میڈیا کا ہے ،جہاں رفتار برق رفتاری سے بھی تیز ہے ۔

اب عوام کو کھوکھلے نعروں اور وعدوں سے بہلایا نہیں جاسکتا ،سیاسی رہنماﺅں کو یہ سوچ کر اپنی سوچ بدلنی ہوگی ۔۔۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img