منگل, دسمبر ۱۶, ۲۰۲۵
9.1 C
Srinagar

ناقص منصوبہ بندی کب تک ؟

جموںوکشمیر خاصکر وادی میں ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ہر برس کروڑوں روپے ضائع ہو جاتے ہیں اور عوامی ٹیکس کا غیر ضروری استعمال کرکے خزانہ عامرہ کو خالی کیا جاتا ہے جبکہ غریب عوام کو فراہم ہو رہی سہولیات میں خلل پڑ جاتا ہے ۔

اگر ہم گذشتہ چند برسوں کا سرسری جائزہ لیں ،تو یہ بات سامنے آرہی ہے کہ وقت کا ہر حاکم اپنی سوچ اور انداز کے مطابق تعمیراتی منصوبہ عمل میں لاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کام نہیں ہوتا ہے، بلکہ وہاں ہر معاملے میں پالیسی بنی ہوتی ہے اور اقتدار کی منتقلی کے باوجود کام کاج اور تعلقات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آجاتی ہے ۔

جموںوکشمیر میں عمر عبد اللہ کی سربراہی والی سرکار نے صورہ سے احمد نگر تک بائی پاس یعنی 90فٹ سڑک کے کنارے ایک گہر ی ڈرین ،گندے پانی کی نکاسی کے لئے تعمیر کی گئی لیکن چند مہینوں کے بعد ہی یہ ڈرین بے کار ثابت ہوئی جبکہ اس پر کروڑوں روپے صرف کئے گئے ۔

مفتی محمد سیداور محبوبہ مفتی کے دور اقتدار میں جہلم کے کنارے بنڈ ، لالچوک میں ایک پارک تعمیر کی گئی اور نئے طرز پر فٹ پاتھ یعنی پیدل گزر گاہیںبنائی گئیں اور اس طرح ان پروجیکٹوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے اور آج ان کاموں کو منہدم کر کے ان جگہوں پر نئے کام ہاتھ میں لئے جارہے ہیں ۔

صورہ سے پاندچھ تک 90فٹ سڑ ک کنارے موجود فٹ پاتھ یہ کہہ کر منہدم کئے گئے کہ یہاں سائیکل سواروں کیلئے علیحدہ ٹریک تعمیر کیا جائے گا لیکن اس سڑک کے کناروں پر بڑے بڑے سیمنٹ کے پتھر نظر آرہے جو ایک کھنڈرات کا منظر پیش کررہے ہیں ۔عوامی حلقوں کا انتظامیہ سے سوال ہے آخر کیوں ؟

سرکاری رقومات کو جان بوجھ کر ضائع کیا جا رہا ہے ،کیا حکام کے پاس کوئی دور رس پالیسی منصوبہ بندی کے حوالے سے موجود نہیں ہے ۔

اگر چندی گڑھ شہر کیلئے 50برسوں کیلئے منصوبہ ترتیب دیا جاسکتا ہے ،جہاں نہ ٹریفک جام ہوتا ہے اور نہ ہی ڈرنیج کا پانی سڑکوں پرجمع ہوجاتا ہے تو جموں وکشمیر کیلئے اس طرح کی منصوبہ بندی تیار کیوں نہیں کی جاتی ہے؟ ۔

اس کے برعکس اس شہر میں ایک سال سڑک پر میکڈم بچھایا جاتا ہے اور دوسرے برس اسی سڑک کوڈرنیج کے نام پر اُکھاڑدیا جاتا ہے ۔

عوامی حلقوں کا سوال ہے آخر یہ سلسلہ یوں ہی کب تک جاری رہے گا؟ ۔اگر موجودہ مرکزی سرکار جموں وکشمیر کی تعمیر وترقی اور نوجوانوں کے روزگار کیلئے فکر مند ہے ،پھر اُسے جموں وکشمیر کی تعمیر وترقی کیلئے ایک ٹھو س اور مربوط منصوبہ بندی عمل میں لانی چاہیے جس پر سرکار یں بدلنے سے کوئی بدلاﺅ نہیں آنا چاہیے جبکہ ان ہی رقومات سے روزگار کے وسائل پیدا کئے جاسکتے ہیں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img