زندگی میں کب کیا ہو گا؟کسی کو معلوم نہیں ہوتا ہے، کب انسان امیر بن جائے اور کب غریب ہو گا پتہ نہیں چلتا ،کب بیمار ہو گا او ر کب خدانہ خواستہ کوئی حادثہ پیش آئے گا کسی کو بھی معلوم نہیں ہے ۔
بات دراصل یہ ہے کہ انسان کو وجود بخشنے والا وہی ذات ہے جو کائنات ،زمین وآسمان کا مالک ہے جس کے ہاتھ میں موت وحیات ہے ۔
اُسی ذات نے انسان کو چند گرام دماغ عطا کیا ہے اور اس دماغ کو کام لینے کی تلقین باربار کی گئی ہے ۔
ایک طرف تقدیر کا حتمی ہونا دوسری جانب انسان کو دماغ سے کام لینے کی تلقین ،خود انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو تا ہے کہ آخر ماجراکیا ہے ؟۔جب انسان اپنے وجود کے اندر جھانک کر دیکھنے لگتا ہے، تو اس پرقدرت کی ذات آشکار ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا دوست بن جاتا ہے، پھر اُسکے ہاتھ میں اُسکی زندگی کی لگام آجاتی ہے۔
پھر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑ تی ہے ،ورنہ بے خبر انسان کو ایک انشورنس ایجنٹ کی طرح ہر کسی کے پاس پالیسی بنانے کیلئے جانا پڑتا ہے اور راہل جہلم کے کنارے دیکھتا رہتا ہے ۔





