مسلم وقف بورڈ اور خادمان بقہ جات کے درمیان مختلف معاملات پرٹھن گئی ہے۔کئی زیارت گاہوں کے خادمان وقف بورڈ کے تازہ حکم نامے کےخلا ف احتجاج کر رہے ہیں جبکہ وقف ذمہ داران اپنے فیصلہ پر ڈٹے ہیں ۔
وقف بورڈ کا جہاں تک تعلق ہے یہ ایک ملی اور قومی اثاثہ ہے جس کو اہلیا ن جموں وکشمیر نے اپنا پیٹ کاٹ کر وجود میں لایا ہے ۔
یہ دوسری بات ہے کہ وقف جائیداد اور یہاں آرہی آمدنی کو مختلف اوقات پر وقف ذمہ داروں نے ذاتی اغراض ومقاصد کیلئے خرچ کیا ہے ۔
کسی ادارے کو صحیح ڈگر پر لانے کیلئے تبدیلیاں لازمی ہیں لیکن ان تبدیلیوں میں بھی دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ،جس دکاندار یا سیاستدان نے وقف جائیداد جس کی مالیت کروڑوں کی ہے صرف چند سکوں کے عوض قبضے میں رکھی ہے، انہیں وقت کے عین مطابق کرایہ دینے کا پابند بنانا چاہیے۔
رہا سوال مختلف درگاہوں سے چندہ وصولی پر پابندی عائد کرنا یہ اچھی بات ہے لیکن ان ہی خادمان نے غربت وافلاس کے باوجود اور خطرناک حالات کے دوران ان زیارت گاہوں کی حفاظت کی اور یہاں بغیر کسی معاوضے کے زائرین کی خدمت کی جن کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ لکھ دیتا ہوں تاکہ سندرہے۔