تحریر:شوکت ساحل
جموں وکشمیر میں کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے جو حالات ہیں، ان میں کسی بھی شخص کا ذہنی انتشار میں مبتلا ہوجانا کوئی تعجب خیز امر نہیں۔خاص طور پر وادی کشمیر میں رہنے والے تو طرح طرح کے وسوسوں میں گھرے پریشاں خیالی کا شکار رہتے ہیں۔
وادی میںبے اماں میں کس لمحے کیا ہوجائے؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ حالیہ دنوں جنوبی ضلع شوپیان میں کشمیری پنڈت کو گولی ماکر ابدی نیند سلا دھا گیا جبکہ اُس کا بھائی اس حملے میں زخمی ہوا ۔
بی بی سی ہندی کیساتھ ایک انٹر ویو میں لیفٹیننٹ گور نر نے کہا کہ ملی ٹنٹوں کے ٹارگیٹ حملے زیادہ مسلمانوں پر ہوئے اور اُنکی ہی زیادہ ہلاکت ہوئی ۔
اس قسم کے حالات کسی بھی نارمل انسان کی پرسکون زندگی کو درہم برہم کرنے اور ذہنی خلفشار کا باعث بنتے ہیں۔
نہ صرف وقوعے میں پھنسے لوگ بلکہ ان سے وابستہ رشتے بھی ذہنی اذیت کا شکار بنتے ہیں اور حالات معمول پر آنے کے بعد بھی واقعے کے اثرات ایک عرصے تک ذہن پر طاری رہتے ہیں۔
کشیدہ ،عدم استحکام اور قتل وغارت گری سے ہی ذہنی انتشار پیدا ہوتا ہے ۔بد مزاجی اور چڑ چڑاپن کسی بھی انسان کی زندگی کو بدل سکتا ہے ۔گوکہ اس حوالے سے آسٹریلوی تحقیق اس بارے میں الگ نظریہ رکھتی ہے ۔
اس تحقیق کے مطابق بدمزاجی یا چڑچڑا پن کوئی بری چیز نہیں بلکہ یہ ہمیں زیادہ واضح انداز میں سوچنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔انسانی جذبات پر تحقیق کرنے والے آسٹریلوی ماہرِ نفسیات پروفیسر جو فورگاس کا کہنا ہے کہ انہوں نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ خوش مزاج افراد کے مقابلے میں چڑچڑے لوگوں کی قوتِ فیصلہ زیادہ اچھی ہوتی ہے۔
آسٹریلین سائنس میگزین سے بات کرتے ہوئے پروفیسر فورگاس کا کہنا تھا کہ جہاں خوش مزاجی انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتی ہے وہیں انسان کا چڑچڑا پن اسے زیادہ مستعد بناتا ہے اور محتاط اندازِ فکر عطا کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک بد مزاج انسان مشکل حالات سے ایک خوش انسان کی نسبت بہتر طریقے سے نمٹ سکتا ہے اور اس کی وجہ انسانی دماغ کا معلومات کا تجزیہ کرنے کا طریقہ ہے۔
پروفیسر فورگاس نے اپنی تحقیق کے دوران رضا کاروں سے کہا کہ وہ مختلف فلمیں دیکھیں اور اپنی زندگی میں پیش آنے والے مثبت اور منفی واقعات کو یاد کریں اور یہ عمل انہیں اچھے یا برے موڈ میں لانے کے لیے کیا گیا۔
اس کے بعد رضاکاروں سے کہا گیا کہ وہ مختلف کاموں میں حصہ لیں جن میں شہری اساطیر کی سچائی پرکھنا اور کچھ واقعات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا شامل تھا۔
تجزیے سے پتہ چلا کہ بدمزاج افراد نے ان کاموں کو خوش مزاج افراد کی نسبت بہتر سرانجام دیا۔ اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ افسرہ افراد کے تحریری دلائل خوش لوگوں سے بہتر ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں پروفیسر فورگاس کا کہنا ہے کہ ’تھوڑا سا منفی مزاج درحقیقت زیادہ ٹھوس، اور کامیاب اظہارِ رائے کو جنم دیتا ہے‘۔ایک رپورٹ کے مطابق پروفیسر فورگاس ماضی میں تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ابرآلود اور بارش والے دنوں میں انسانی یادداشت تیز ہو جاتی ہے جبکہ روشن دن انسان کو بھلکڑ بنا دیتے ہیں۔
یہ موضوع چونکہ بہت اہم اور طویل ہے اس لیے مرحلہ وار آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی ہم کوشش کریں گے۔
تاہم ماہر نفسیات کا قو ل ہے کہ نفسیات وما بعد نفسیات کے پیرائے میں چاہے انسانی نفسیات ہو یا ماورائی علوم کا حصول، بار بار ارتکاز توجہ کی اہمیت اس لیے ہیں کہ یہ مشقیں ذہن انسانی پر بہت تاثر چھوڑتی ہیں، آپ کی شخصیت میں ٹھہراﺅ، مستقل مزاجی اور قوت فیصلہ کو بڑھاتی ہیں، نیز ماورائی علوم کے حصول میں بھی مہمیز کا کردار ادا کرتی ہیں۔
ایسے میں مشکل حالات سے نمٹنے کے لئے ثابت قدم اور مثبت رہنا زیادہ ضروری ہے ۔