ہفتہ, ستمبر ۲۰, ۲۰۲۵
14 C
Srinagar

معصوم ہلاکتیں کب تک ؟

تحریر:شوکت ساحل

جنوبی کشمیر کے پہاڑی ضلع شوپیان کے چھوٹی گام میں گزشتہ روز مسلح افراد کی فائرنگ سے کشمیری پنڈت سنیل کمار پنڈت ہلاک جبکہ اس کا بھائی پتمبر ناتھ پنڈت زخمی ہوا ۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ،اس سے قبل بڈگام میں کشمیری پنڈت راہل بھٹ اور کولگام میں ایک اُستانی ،رجنی بالا کو بھی بندوق برداروں نے گولی کا نشانہ بنا کر ابدی نیند سلا دیا ۔

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق 5اگست2019 سے لیکر 9جولائی2022تک جموں وکشمیر میں مختلف تشدد آمیز واقعات کے دوران128سیکیورٹی فورسز اہلکار اور118عام شہری ہلاک ہوئے جن میں بعض سیاسی کارکنان اور بعض غیر مقامی شہری شامل ہیں ۔

گزشتہ تین دہائیوں سے جموں وکشمیر میں قتل وغارت گری کا نہ تھمنے والا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔

مرکزی حکومت نے 5اگست2019کو پارلیمانی فیصلہ جات کے تحت جموں وکشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کرکے یہ دعویٰ کیا تھا ،اب نہ صرف جموں وکشمیر مکمل طور پر بھارت میں ضم ہوگیا ہے بلکہ امن ،خوشحالی اورتعمیروترقی کا نیا دور شروع ہوچکا ہے ۔

گزشتہ تین برسوں سے مرکزی حکومت کیساتھ ساتھ ایل جی انتظامیہ بھی یہ دعویٰ کررہی ہے کہ جموں وکشمیر ترقی کی جانب گامزن ہے اور بعض لوگوں نے اپنی آنکھوں پر سیا ہ چشمے لگا رکھے ہیں اور اُنہیں امن ،خوشحالی اور تعمیروترقی نظر نہیں آرہی ہے جبکہ جموں وکشمیر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آخری وار شروع ہوچکا ہے ۔

گزشتہ کئی برسوں سے سیکیورٹی ایجنسیاں یہ دعویٰ کررہی ہیں کہ وادی کشمیر میں 200سے کم ملی ٹنٹ سرگرم ہیں ،جن میں غیر مقامی ملی ٹنٹ بھی شامل ہیں اور مقا می نوجوانوں میں ملی ٹنٹ بننے کی چاہ کا گراف بھی مسلسل نیچے آرہا ہے۔

تاہم پڑوسی ملک پاکستان جموں وکشمیر میں خرمن امن کو بگاڑ نے میں اب بھی مصروف ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران خاص طور پر دفعہ370اور35(اے) کی تنسیخ کے بعد جموں وکشمیر میں بہت کچھ بدلا اور بدلاﺅ زمینی سطح پر واقعی نظر آرہا ہے ۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جموں وکشمیر میں اب سیاسی عدم استحکام ،خلفشار اور انتشار موجود ہے ۔

ہلاکتوں کا لامتناعی سلسلہ بھی جاری ہے ۔ہدفی نشانہ بنا کر نہ صرف غیر مسلم زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں بلکہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کیساتھ ساتھ ساتھ مقامی مسلمان بھی اس کی زد میں ہے ۔

ویسے جموں وکشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران صرف غیر مسلم ہی نہیں بلکہ مسلمان اور سکھ بھی بندوقوں کے دھانوں پر رہے ۔سیاسی استحکام ،امن ،خوشحالی اور تعمیر وترقی کے لئے امن ناگزیر ہے ،جس کا برملا اظہار لیفٹیننٹ گور نر ،منوج سنہا حالیہ کئی خطابات کے دوران کرچکے ہیں ۔

سیاسی عدم استحکام ،خلفشار ،انتشار اور تشدد کو نئی نئی سیاسی پارٹیاں معرض وجود میں لانے سے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔کیوں کہ کسی نے خوب کہا ہے کہ سیاسی پارٹی بنانے سے سماج منقسم ہوتا ہے ۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ سماج کو متحدد کرنے کے لئے دور رس کوششیں کی جائیں اور پالیسیاں مرتب کی جائیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ ہلاکتوں کے نہ تھمنے والے سلسلے کو روکنے کے لئے مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے ۔

سماج کے تمام طبقہ ہائے فکر اور مختلف خیالات ونظریات رکھنے والے افراد کو ایک میز پر لایا جائے اور جموں وکشمیر کی تشکیل نو کے لئے سب مل جل کر سر جوڑ کر بیٹھ جائیں ۔

خارجی سطح کو یکطرف رکھ کر فی الحال داخلی سطح پر مفاہمتی اور مذاکراتی عمل بحال کیا جائے ۔تاکہ صحیح راستے کی تلاش کی جاسکے اور شاعر کشمیر، غلام احمد مہجور مرحوم کا یہ خواب (ولو ہا باغوانو نو بہارک شان پیدا کر ۔۔۔ پھلن گل گت کرن بلبل تتھی سامان پیدا کر ) شرمندہ تعبیر ہوسکے۔

ساتھ ہی ساتھ جو زہر آلودہ درخت جموں وکشمیر کے سماج کے لئے ایک ناسور بنتا جارہا ہے ،اُس درخت کی شاخ تراشی کرانے سے بہتر ہے کہ جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img