صدف شبیر ،فہیم متو
سرینگر: ایک عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک امریکی تنظیم ’انٹر نیشنل ویمنزمیڈیا فاو¿نڈیشن اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی‘ کی ایک مشترکہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں کے ذرائع ابلاغ میں خواتین کو اپنے کام اور ترقی کے راستے میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارت ،پاکستان ، امریکہ سمیت مختلف ممالک میں مقامی ٹیلیو یژن چینلز کی زیادہ تر میزبان اور رپورٹر خواتین ہیں۔اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے نیوز روم بھی خواتین سے پر نظر آتے ہیں۔کشمیر وادی میں بھی گزشتہ کئی برسوں سے صحافت کے میدان میں کافی بدلاﺅ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
تعلیمی اداروں سے صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب کشمیری خواتین آگے آکر نہ صرف معاشرے کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں بلکہ وہ میڈیا کی ترقی میں بھی اہم اور کلیدی رول ادا کررہی ہیں ۔گزشتہ کئی برسوں سے صحافت کے میدان میں تعمیری رول ادا کرنے والی کشمیری خواتین صحافیوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ کشمیر میں خواتین صحافیوں کو ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے۔
کشمیری لائف سے وابستہ اقراءآخون کہتی ہیں ’مجھے صحافت کے میدان میں پانچ برس ہوگئے ،سماج کا خواتین کے تئیں رویہ انتہائی مایوس کن ہے ،یہاں تک کہ میرے رشتہ داروں کا رویہ بھی بدلا سا محسوس ہونے لگا ،لیکن مجھے نہیں معلو م مثبت یا منفی طور اُن کا رویہ بدلا ،جب بھی وہ مجھ سے بات کرتے تھے ،تومجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ مجھے نظر انداز کررہے ہیں ‘۔

اقراءکہتی ہیں ۔’وقت گزر نے کیساتھ ساتھ اِن سب چیزوں سے مقابلہ کرنے کے بعدجب کوئی بھی خاتون خود کھڑی ہوجاتی ہے،والدین اور فیملی کا ساتھ اور تعاﺅن ملتا ہے ،تو وہ خود کوثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں اقرا ءکہتی ہیں کہ صحافت کے میدان میں خواتین کے لئے کافی مواقعے موجود ہیں ،کلاس رومز سے فارغ ہونے کے بعد جب عملی میدان میں آپ آجاتی ہیں ،تو آپ کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہاں بھی آپ کے لئے کافی مواقعے ہیں ،ہم لوگ اس میدان میں پیچھے نہیں ہیں ،آگے بڑھ سکتے ہیں،ہاں ضرروی ہیں کہ ہم با صلاحیت ہوں ‘۔
تین برسوں سے صحافت کے میدان میں اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے میں مصروف ندااپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کہتی ہیں ’جب رپورٹننگ کے وقت ناشائستہ فقرے کسے جاتے ہیں ،تو حوصلہ شکنی ہوجاتی ہے ،جب کہ ہر وقت یہی سننے کو ملتا ہے کہ صحافت لڑکیوں کے لئے نہیں ہے ،سماجی رابطہ سائٹس پر بھی تنقیدی کمنٹس پڑھنے کو ملتے ہیں ،تو اُس وقت انسان سوچتا ہے کہ چھوڑ دو ،لیکن ہمیں تنقید کو بھی مثبت انداز میں لینا چاہیے۔‘

ملٹی میڈیا جرنلسٹ ،ارتضیٰ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں ’فیلڈ میں بہت کچھ سننے کو ملتا ہے ،کبھی آپ کے پہناﺅے ،تو کبھی کیمرے کے سامنے آنے پر طرح طرح کے جملے اور فقرے سننے کو ملتے ہیں ،صحافت کے میدان میں بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے ،لیکن مشکلات بھی درپیش ہیں ‘۔

تمام مشکلات کے باوجود کشمیری خواتین نہ صرف اپنے والدین بلکہ جموں وکشمیر کا نام روشن کرکے ہر ایک سر فخر سے اونچا کررہی ہیں ۔فری لائنس فوٹو جر نلسٹ ،مسرت زہرا اور ثناارشاد متو عالمی سطح کے ایوارڈز حاصل کرکے تاریخ رقم کر چکی ہیں جبکہ وہ دوسروں کے لئے مشعل ِ راہ بن رہی ہیں ۔