تحریر:شوکت ساحل
عمل کی بنیاد پر ہی انسانی زندگی کندن بنتی ہے۔ بد اعمالی سے تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
خیر اور شر دوونوں ہی انسان کی سرشت میں شامل ہیں۔ نیکی اور برائی کی دونوں راہیں انسان کے سامنے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دونوں میں فرق کی شناخت کے لیے انسان کو شعور کی دولت سے مالامال کیاہے۔اہلِ خیر اللہ تعالیٰ کے احکامات دوسروں تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیںجب کہ شیطان بھی اپنی عادت فراموش نہیں کرتا۔
اس کی سرشت میں اللہ کریم کے بندوں کو راہِ حق سے بھٹکانا اور باطل کی راہ دکھانا ہے لیکن اللہ تعالیٰ خوف رکھنے والے ،دوسروں کو نیکی ، خیر خواہی اور امن و سلامتی کا راستہ دکھاتے ہیں جب کہ شیطان لالچ اور حرص دے کر انسانوں کو اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ظاہری چمک دمک اور عیش ونشاط کی محافل میں الجھا انسان اپنی اصلی حیثیت بھول جاتاہے۔
وہ اپنی بے جا خواہشات کی تکمیل کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرتاہے۔اپنے ماحول اور معاشرے کا حق مارتاہے۔ وہ خود کو دوسروں سے بالا تر رتبے کا خواہاں ہوجاتاہے۔
اپنے نفس کی تسکین کے لیے وہ بدعنوانی کا راستہ اختیار کرتاہے۔زندگی کے حقیقی عنوان سے بھٹکنے والے بدعنوانی کا شکار ہوتے ہیں۔ کرپشن کا یہ راستہ کسی ایک نقطے پر مرکوز نہیں رہتا۔
وسعتِ کائنات کی طرح یہ بھی دائرہ در دائرہ اپنا جال بچھاتے ہیں۔ بدعنوانی ایک جال ہے جس میں لالچ ، طمع ،حرص، جھوٹ،مکاری ، فریب اور خود نمائی کے خوش نما نگینے جَڑے ہیں۔کم فہمی اور خود فریبی کے شکار لوگ ،ان جھوٹے نِگوںکی چمک سے اپنی حقیقت فراموش کر جاتے ہیں۔ا±ن کی آنکھیں چندھیاجاتی ہیں۔
انھیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔عصرِ حاضر میں جموں وکشمیر کی ترقی بدعنوانی کی وجہ سے متاثر ہورہی ہے۔ بدعنوان عناصر جموں وکشمیر کی تعلیم ، صحت اور بنیادی ضرورتوں کی تکمیل میں حائل ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف اجتماعی جنگ لڑی جائے۔
آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں وہ بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو کشتی قوم کا ناخدا بنایا گیا ،انھوںنے طوفاں کی حقیقت سے قوم کو غافل رکھا۔ جب مقتدرہ حضرا ت ہی کرپشن زدہ ہو چکے ہیں تو ایک عام شہری سے ایمان داری اور دیانت داری کی کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟اِس کرپشن نے ہمارے خطے کواس انداز سے نقصان پہنچایا ہے جس طرح دیمک مضبوط ترین لکڑی کو بھی کھا جاتی ہے۔عالیشان شیش محل ، قیمتی ترین گاڑیاں ، شادی بیاہ کی تقریبات میں شہ خرچیاں کس طرح ممکن ہوسکتی ہیں۔ اِن کے پس منظر میں کرپشن کے حاصل کردہ مال کارفرما ہے۔
چہرے پہ چہرہ چڑھا ہے ، کرپشن کا مال تلاش کرنے کے لیے کوئی آلہ ٰ نظر نہیں آتا۔ کالا دھندہ کرنے والوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔
یہی وجہ ہے غربت پھن پھیلائے کھڑی ہے۔کلاس فورتھ ملازمین ،جن کی تنخواہ ماہانہ 20سے30ہزار نہیں ،وہ اربوں روپے جائیدادوں کے مالکان ہیں ۔انہوں نے نہ صرف جائیدادیں اپنے نام پر رکھیں ہیں بلکہ اپنے رشتہ داروں کے نام پر بھی رکھی ہے ۔
ہمارے انجینئر وں ،بیو روکریٹوں ،سیاستدانوں نے پل اور سڑکیں کم ۔۔اپنے لئے عیش وعشرت کا سامان زیادہ پیدا کیا ۔اگر صحیح احتساب بغیر کسی انتقام گیری کے ہوجائے ،تو سب کچھ آئینہ کی طرح صاف ہوجائیگا ۔