پولیس حکام کی اولین ذمہ داری

پولیس حکام کی اولین ذمہ داری

مشہور کہاوت ہے کہ ”نوکری چاکری پست ازگدائی “ یعنی نوکری کسی بھی قسم کی ہو وہ گداگروں سے بہتر ہرگز نہیں کیونکہ ایک سرکاری ملازم کو جب چاہے اپنا افسر یا حاکم کوئی بھی حکم دے سکتا ہے اور اسکو بہرحال اُسے ہر حال میں پورا کرنا ہوتا ہے ۔

جموں وکشمیر گذشتہ 3دہائیوں سے جن حالات سے گذررہا ہے، اُن میں سب سے زیادہ مشکل اور سخت کام اگر کسی نے کیا ہے تو وہ محکمہ پولیس سے وابستہ وہ اہلکار وافسران اور دیگر لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں پر کھیل کر محکمہ پولیس میں نوکری کی جب ایک طرف یہ لوگ ملی ٹینٹوں کے نشانے پر تھے اور دوسری جانب پولیس سے وابستہ افراد کو سماج میں بھی مسائل ومشکلات کاسامنا کرنا پڑتا تھا، اسکی مثال جامع مسجد سرینگر میں پیش آئے پولیس آفیسر کی ہلاکت سے ملتی ہے جنہیں دوران ڈیوٹی نوجوانوںایک ہجوم نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا تھا ۔

بہرحال پولیس کی نوکری اس قدر سخت اور مشکل ہے ،شاید ہی کسی اور محکمے کی ہو گی ۔قانون کے مطابق یہ بھی ایک مد ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں پولیس محکمے میں کام کرتے ہوں تو انکو تقریباً ایک ہی علاقے یا دائرے اختیار میں تعینات رکھا جاتا ہے مگر ہماری اس وادی میں اس طرح کا طریقہ کار نہیں عملایا جاتا ہے۔ مرد ایک علاقے میں ہوتا ہے اور عورت دوسری جگہ تعینات ہوتی ہے ۔

نتیجہ یہ نکل آتا ہے ایسے پولیس اہلکاروں کے بچے تعلیم وتربیت اور والدین کی شفقت سے ہی محروم ہو جاتے ہیں ۔

جہا ں تک زنانہ پولیس کا تعلق ہے پڑھی لکھی عورتیں زیادہ تر پولیس میں کام کرنے کا جذبہ رکھتی ہیں ،شاید اسی لئے خواتین زیادہ سے زیادہ پولیس ،فوج اور نیم فوجی اداروں میں بھرتی ہوتی ہیں جو کہ ایک اچھا قدم ہے ۔

سننے میں آیا ہے کہ امرناتھ یاترا کے دوران عورت پولیس اہلکاروں کی اچھی خاصی تعداد بھی ڈیوٹی پر تعینات کردی گئی ہیں جنہیں مختلف بیس کیمپوں پر حفاظت کیلئے مامور کیا گیا ہے ۔بہرحال ڈیوٹی دینی اُن کی قانونی واخلاقی ذمہ داری ہے یہ اُنہیں کہیں پر بھی دینی ہو گی، لیکن اعلیٰ افسران کو ان زنانہ اہلکاروں کی تعیناتی کے دوران ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ کئی اُنہیں مسائل ومشکلات کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا ہے کیونکہ اگر یہ اہلکار ذہنی طور مضبوط اور تندرست نہ ہوں تو یہ ہرگز اپنی ڈیوٹی بہتر ڈھنگ سے انجام نہیں دے سکتی ہیں بلکہ محکمہ پولیس کے سربراہ اور دیگر افسران کو ان باتوں کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ میاں بیوی کی صورت میںدونوں کو ایک ہی علاقے یا تعینات رکھنا چاہیے تاکہ وہ سرکاری ملازمت بھی بہتر ڈھنگ سے کر سکے اور اُن کی گھریلوں زندگی متاثر بھی نہ ہو ،جیسا کہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ بہت سارے لوگ پولیس کی نوکریاں چھوڑنے کی سوچ رہے ہیں ۔

لہٰذا ان افسران کو دور اندیشی اور صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے جو کہ وقت کی بے حد ضرورت ہے ۔پولیس حکام کی اولین ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اپنے جوانوں مرد خواتین اہلکاروں کی ہر مشکل پر نظر رکھیں تاکہ وہ بہتر ڈھنگ سے اپنا کام انجام دے سکں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.