جہلم پھر اُبل پڑا ۔۔۔

جہلم پھر اُبل پڑا ۔۔۔

تحریر :شوکت ساحل

چار روز قبل دریائے جہلم میں سطح آب چند انچ تک رہ گئی تھی اور کہیں کہیں جہلم کی تہہ نظر آرہی تھی ۔موسم خشک تھا ،درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا اور لوگ شدید گرمی سے دوچار ہورہے تھے ۔

زمیندار آبپاشی کے لئے درکار پانی کی ایک ایک بوند کے لئے ترس رہے تھے اور وہ ذہنی کوفت کا شکار ہورہے تھے جبکہ کھیت کھلانیوں میں شگاف پڑنے لگے تھے اور خشک سالی سے زمینداروں کو فصلوں کے تباہ ہونے کا ڈر ستا رہا تھا ۔اچانک اللہ تعالیٰ کی شان ِ

رحمت ،ابر ِ کرم بن کر برس پڑی ۔نہ صرف بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا بلکہ پہاڑوں نے ماہ ِ جون میں سفید چادر اوڑھ لی اور اہلیان کشمیر کو گرما میں سرما کا احساس ہونے لگے ۔

ماہر موسمیات کا ماننا ہے کہ یہ موسمیاتی تغیروتبدل کا نتیجہ ہے کہ جون میں بھی پہاڑوں پر برفباری دیکھنے کو مل رہی ہے جبکہ اس کے لئے حضرت انسان کے ہاتھ ہی کار فرما ہیں ،کیوں کہ انسان نے خود غرضی کا لبادہ اوڑھ کرفطرت کیساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا اپنا شیوہ بنا رکھا ہے ۔جنگلات کا صفایا ،سر سبز اور شاداب درختوں کا بے دریغ طریقے سے کٹاﺅ ،آبی ذخائر کو آلودہ کرنا اور ان پر غیر قانونی قبضہ جمانا اور بغیر اجازت و اثر ورسوخ کی بنیاد پربڑی بڑی عمارات تعمیر کرنا معمول بن چکا ہے ۔

آخر کیا وجہ ہے کہ رُ ک رُک کر ہونے والی رحمت ِ باراںاہلیان کشمیر کے لئے زحمت بن گئی ؟محکمہ موسمیات کی جانب سے جمعرات کی صبح جاری کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق سرینگر میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 3.4ملی میٹر بارش ہوئی ،قاضی گنڈ میں 8.0ملی میٹر ،پہلگام میں4.2ملی میٹر ، کپوارہ میں 2.0ملی میٹر ،کوکرناگ میں13.8ملی میٹر ، گلمرگ میں10.0ملی میٹراور جموں میں 1.0ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ۔ چند ملی میٹر کی بارش نے کیوں کر جہلم کو دوبارہ اُبلنے پر مجبور کیا ؟کیوں لوگوں کی سال2014کے تباہ کن سیلاب کی یاد یں تازہ ہوگئیں ۔

آخر کیوں ؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر کے65 میل جنوب میں، تحصیل ویری ناگ (ضلع اننت ناگ) ہے ،جہاں ’ کوہِ پیر پنجال‘ کے خوبصورت اورصنوبر کے درختوں سے ڈھکے پہاڑ کے دامن میں، 50 فٹ گہرا اور100 فٹ پر محیط ایک چشمہ’ویری ناگ‘ ہے۔

یہی چشمہ آگے جا کر کشمیر کے مشہور دریا ’دریائے جہلم‘ کو جنم دیتا ہے۔’فرزندِ کشمیر‘ دریائے جہلم ، جسے ویتھ، وتستا، ہائیڈراپسِس، اور نہ جانے کن کن ناموں سے پکارا جاتا ہے۔یہ وادی¿ کشمیر کا ایک مرکزی دریا ہے، جو نہ صرف زراعت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے بلکہ ماضی قدیم میں سامان کی نقل و حرکت کا بھی اہم ذریعہ تھا جبکہ موجودہ انتظامیہ نے بھی سیاحت کو فروغ دینے کے لئے اس میں آبی ٹرانسپورٹ کی سہولیت متعارف کی۔

ویری ناگ نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ویری اس علاقے کا پرانا نام تھا اور’ناگ‘ مقامی زبان میں چشمے کو کہتے ہیں ،جو اس شہر کی وجہ شہرت ہے۔ شروع میں یہ ایک بے ڈھنگا سا چشمہ تھا جس کے کناروں سے پانی اچھل اچھل کر بہتا رہتا تھا۔ شہنشاہ جہانگیر کی نظر اس پر پڑی تو ا±س نے یہاں ایک تالاب اور اسکے اطراف میں ایک خوبصورت باغ بنوایا۔

یہ چشمہ صدیوں سے اپنی شا ن وشوکت کیساتھ بہہ رہا ہے ۔حکومت اس کے تحفظ کے لئے بلند بانگ دعوے کررہی ہے ۔دریائے جہلم کی ڈریجنگ پر کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں ،تاکہ اس گہرائی ہوسکے اور ہنگامی صورت ِ

حال کے دوران جہلم میں زیادہ سے زیادہ پانی جذب ہوسکے۔تاہم کیا وجہ ہے کہ معمولی ملی میٹر بارشوں سے دریائے جہلم کے کنارے کیوں چھلکنے لگتے ہیں؟۔انتظامیہ کو دریائے جہلم کی ڈریجنگ پر کئے جانے والے اخراجات کا آڈٹ کرنا چاہیے اور متعلقہ حکام کو جوابدہ بناناچاہیے ۔

ساتھ ہی ساتھ اس دریا کے تحفظ کے لئے غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھانے چاہیے اور خلاف ورزی کرنے والے افراد خواہ وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو ،کے خلاف کارروائی عمل میں لانی چاہیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.