ہم ذہنی طور اب بھی غلام۔۔۔

ہم ذہنی طور اب بھی غلام۔۔۔

برصغیر جو ابھی اُن انگریز ممالک سے ہر لحاظ میں بہت پیچھے ہیں، جنہوں نے لگ بھگ دو سوسال تک ان کو اپنا غلام بناکے رکھا تھا اور اس دوران یہاں کے لوگوں پر طرح طرح کے مظالم ڈالے ۔

ان ممالک کی باحس اور باضمیرشخصیات نے انگریزوں کے سوچ وفکر اور بھارت واسیوں پر ظلم وجبر برداشت کرنے سے قطعی انکار کیا۔

انگریز وں کے خلاف بغاوت شروع کی ،اس طرح ہر طرح کی قربانیاں دیکر ان ممالک کے کروڑوں لوگوں کو انگریزوں کے چنگل سے آزا د کروایا ،لیکن انگریزوں نے اپنے دماغی صلاحیتوں کابھرپور استعمال کر کے آزادہو کر بھی ان ممالک کے رہنے والے لوگوں کو اپنی غلامی کی طوق اُن کی گردنوں میں ڈال دی ،اسطرح اس ملک یعنی بھارت کے کئی حصے کروائے ،ہندوستان،پاکستان اور بنگلہ دیش وجود میں لاکر یہاں کے لوگوں کو آپس میں لڑوایا ،ان سے طرح طرح کے جنگی ہتھیار ،سازوسامان اور جہاز فروخت کرتے رہے ۔

یہ ممالک ہتھیاروں کی دوڑ میں اپنے عوام کو کنگال کرتے رہے ،اب جبکہ یہ باتیں برصغیر کے ان ممالک میں رہنے والے لوگوں کو بخوبی معلوم ہیں، پھر بھی وہ کیوں ایسے کام کرتے رہتے ہیں جس سے ان انگریز ممالک یہود ونصارا کو براہ راست فائدہ مل رہا ہے۔

کیوں اب بھی یہ ممالک ایک دوسرے کےساتھ دشمنی رکھ کر خود کا نقصان کررہے ہیں او ر تو اور بھارت ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ انگریزی بولتے ہیں، انہیں اپنی مادری زبانوں میں بات کرنا معیوب لگتا ہے ۔

کسی سرکاری یا غیر سرکاری محفل میں اُس وقت تک سننے اور بولنے والوں کو مزہ نہیں آئے گا جب تک وہاں انگریزی میں بات نہ کی جائے ،آج کل کے نوجوان ان ممالک کے کپڑے ،جوتے اور دیگر چیزوں کو خرید کر خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں آخر کیوں ؟ جہاں تک ملک کے موجودہ وزیر اعظم کا تعلق ہے ،وہ میک ان انڈیا اور میڈان انڈیا پر زور دیتے ہیں، وہ اپنی زبان میں بات کرتے ہیں، جو ملک کے ہر شہری کو بہ آسانی سمجھ میں آتی ہے، اسکے برعکس ہمارے اساتذہ ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان صرف انگریزی بولنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ماتما گاندھی اور دیگر آزادی کے متوالیوں نے انگریزی چیزوں کا بائیکاٹ کیا تھا وہ اپنے اس ملک کو جو آج تین حصوں میں تقسیم ہے ،کے لوگوں کو خود کفیل اور خوددار بنانے کیلئے اپنی زو ر آزما ئی کررہے تھے اور کسی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔

اسکے برعکس آج ان ممالک کے لوگ انگریزی زبان ،تہذیب وکلچر ،ساز وسامان کو استعمال کرتے ہیں، جو صرف غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔لہٰذا ملک ہندوستان میں اس حوالے سے بدلاﺅ آنا چاہیے اور حکومتی سطح پر کوشش ہونی چاہیے تاکہ ہمیں واقعی وہ آزادی حاصل ہو سکے جس کیلئے ہمارے اسلاف نے قربانیاں دی تھیں۔

جہاں تک ہمسایہ ممالک کا تعلق ہے اُن سے بہتر تعلقات قائم کرنے چاہیے کیونکہ ہم ایک ہیں اور ہماری تہذیب وثقافت ،تمدن اور زبان بھی ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے نہ کہ انگریزوں سے ۔ہندوستان کو اس حوالے سے بڑے بھائی کی حیثیت سے کام کرنا چاہیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.