احتساب لازمی

احتساب لازمی

جموں وکشمیر میں صاف وشفاف انتظامیہ کے وعدے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایل جی انتظامیہ متحرک نظر آرہی ہے ۔ اس بات کا واضح ثبوت اس بات سے بخوبی مل رہا ہے کہ حالیہ دنوں 1200سب انسپکٹروں کی بھرتی عمل میں دھاندلیوں کا انکشاف جو ہوا تھا ،اُسکے لئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی سربراہی میں 3رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی اور کمیٹی نے اس حوالے سے بیانات وغیرہ قلم بند کرنے شروع کئے ہیں۔ تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بہتر ڈھنگ سے الگ الگ ہو سکے ۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ 1953ءسے لیکر سال 2020تک جس طرح جموں وکشمیر میں رشوت ستانی ،لوٹ کھسوٹ اور دھاندلیوں کا سلسلہ چلتا رہا ہے ،وہ ملک کے کسی بھی حصے میں نہیں دیکھا گیا، غالباً یہی وجہ تھی کہ جموں وکشمیر رشوت ستانی کے معاملے پر پہلے نمبر پر تھی ۔اگر چہ کانگریس لیڈر اور جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزا د کے دور میں کسی حد تک رشوت ستانی پر قدغن لگ گئی تھی اور کئی بیوروکریٹوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اور جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی تھی۔ تاہم اُس غبارے میں بھی بعد میں ہوا نکل گئی ،اب جبکہ پورے ملک میں یہ نعرہ بلند ہونے لگا ہے کہ ملک میں رشوت ستانی کا خاتمہ کیا جائےگا اور صاف وشفا ف انتظامیہ فراہم عوام کو کی جائے گی۔ جی ایس ٹی ،آر ٹی آئی سے جیسے قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا اور اس طرح جموں وکشمیر پر بھی اس کابراہ راست اثر پڑا اور یہاں بھی کسی حد تک رشوت ستانی پر قدغن لگنے لگی ،مگر یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ جموں وکشمیر میں کوئی بھی کام مقررہ وقت کے اندر سرکاری دفتروں میں نہیںہو رہا ہے ۔سرکار ملازمین اور افسران جان بوجھ کر لوگوں کو مختلف بہانوں سے تنگ وطلب کرتے ہیں ،اس طرح یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ مرکزی حکومت کی جانب سے ہدایت ہے کہ لوگوں کو پریشان کیا جائے ۔جہاں تک دھاندلیوں کا سوال ہے ،یہ آج کا الزام نہیں ہے بلکہ کرکٹ ایسوسی ایشن ،جموں وکشمیر بینک اسکینڈل ،سرکاری زمین کو اثر ورسوخ رکھنے والے لوگوں کے نام پر اندراج کرنے جیسے درجنوں ایسے معاملات ہیں ،جن کے بارے میں اگرچہ تحقیقاتی عمل شروع کیا گیا ہے۔ تاہم دھیرے دھیرے ان معاملات کو کھٹائی میں ڈال دیا جاتا ہے ۔عوامی حلقے خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اسطرح کا حشر سب انسپکٹر وں کی بھرتی عمل تحقیقات کا بھی نہیں ہونا چاہیے ،کیوں کہ غریب پڑھے لکھے بچوں کو مودی سرکار سے کافی زیادہ اُمیدیں وابستہ ہیں ۔لہٰذا منتخب تحقیقاتی کمیٹی کو انصاف کی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے تاکہ موجودہ انتظامیہ کی بدنامی نہ ہو ، جس کیلئے بہت سارے انتظامی افسران کوشاں ہےں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.