وادی کے دیہی علاقوں میں اس وقت دھان کی پنیری لگانے کا کام شد ومد سے جاری ہے اور زمیندار زبردست محنت ولگن سے اس کام کو انجام دینے میں مصروف ہیں ۔
اکثر علاقوں میں یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ مقامی مزدوروں کی بجائے زیادہ تر باہر کے لوگ ان کھیتوں میں کام کررہے ہیں ۔
یہ بیرونی مزدور دہاڑی کی بجائے ٹھیکہ پر کام کرتے ہیں کیونکہ اُس صورت میں زیادہ محنت کرتے ہیں اور زیادہ پیسہ بھی کماتے ہیں ۔دیکھا جائے تو مقامی زمیندار خود بہت کم کام کرتے ہیں ۔
دیکھا جائے تودھان کی پنیری لگانے کے موسم میں باہر کے یہ مزدور اچھی خاصی رقم کمالیتے ہیں اورسال بھر وہ ان پیسوں سے اپنی زندگی کی گاڑی چلاتے ہیں ۔
یہ صرف زمینداری کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر علاقے میں اب مستری ،نجار ،گلکار اور مزدور باہر کے نظر آتے ہیں جبکہ پہلے ایا م میں ایسا نہیں ہوتا تھا ۔آخر ماجرہ کیا ہے؟ کیا وادی کے لوگ اب محنت مزدوری پر یقین نہیں رکھتے ہیں؟یا پھر اُن کے پاس اتنا زیادہ روپہ پیسہ ہے کہ وہ سعودی شیخوں کی طرح تمام کام کرنے کیلئے بیرونی ممالک یا ریاستوں سے لوگوں کو لارہے ہیں ۔
مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ یہاں سبھی لوگ دن رات غربت وافلاس کارونا روتے ہیں ۔وہ بے روزگاری اور کام نہ ہونے کا روز ڈنڈھورہ پیٹتے ہیں ۔
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ وادی کی نئی پود ان کاموں میں دلچسپی نہیں لیتی ہے، وہ آسان کام ڈھونڈتے ہیں اور بغیر محنت کے ڈھیر ساری دولت کمانا چاہتے ہیں یعنی وہ رات ورات کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں ۔
نامساعد حالات کے دوران جس تیز رفتاری کےساتھ یہاں تعمیر وترقی اور بہتر اقتصادی حالت ہوئی ہے ،اُس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے یہاں چند لوگ راتوں رات امیر بن گئے او ر نئی نسل اسی دیکھا دیکھی کے عالم میں محنت ومشقت کرنابھول گئی ہے۔
کشمیری نوجوان تمام اصول بھول کر آسان طریقے سے دولت حاصل کرنے میں مشغول ہو رہے ہیں ۔چاہے اسکے لئے اُنہیں آداب زندگی کے حدود پارکرنا کیوں نہ پڑے ۔شاید اسی لئے یہاں زیادہ تر لوگ غلط کام کرنے میں مصروف ہو گئے ہیںاور اپنے کھیتوں میں محنت نہیں کر پاتے ہیں جو کہ ایک خطرناک مرض ہی تصور کیا جائے گا ۔
موجودہ نسل کو اپنے بزرگوں کی جانب ایک نظر ڈوڑانی چاہیے کہ کس طرح وہ محنت مزدوری کر کے حلال روزی روٹی کماتے تھے ، اُن کی زندگی ہمیشہ خوشحال اور صحت مند ہوتی تھی جو آج کہیں نظر نہیں آرہی ہے ۔دولت مہیا ہونے کے باوجود بھی ہر انسان فکر و تشویش اوراندیشوں میں مبتلاءہے ۔





