تحریر:شوکت ساحل
مذہبی ہم آہنگی پردنیا میں جب بھی بات ہوئی اور ہوتی رہے گی، اسلامی تعلیمات کو ہمیشہ فوقیت دی جاتی ہے اور دی جاتی رہیں گی کیونکہ مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں دین اسلام نے روز اول سے اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ سردارِ دو جہاں جیسی عظیم ہستی حضرت محمد ﷺ نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرکے دنیا کے سامنے بہترین مثال پیش کی ہے جسے پوری دنیا مانتی رہی ہےاور مانتی رہے گی۔پیغمبر اسلام ﷺکی سیرت پر ہندو مصنف سوامی لکشمن پرشاد کی کتاب’عرب کا چاند‘ایک بہترین نمونہ ہے۔دین اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب بھی پیار ومحبت اور امن و امان سے رہنے کا درس دیتے آئے ہیں۔
تاہم کچھ شرپسند عناصروں نے دنیا کا امن تاراج کرنے کی ٹھانی ہے،جس کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا ایسے شرپسندوں کی وجہ سے نہ صرف معاشرہ عدم برداشت کی طرف جانا شروع ہوگیا ہے بلکہ معاشرہ مزید گروہی تقسیم کا شکار ہوگیا۔
اس لیے ذمہ دار شہریوں، علماءکرام، اساتذہ کرام سمیت ہر طبقہ ِ فکر کو چاہیے کہ وہ معاشرے سے عدم برداشت کا رجحان ختم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور یہ کام ترجیحی بنیادوں پر اور ضروری کریں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے اور بین المذاہب ہم آہنگی اس معاشرے کا انتہائی حساس موضوع بن چکا ہے جس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اور اسی کا فائدہ اٹھا کر شرپسند عناصر اس کا خوب خوب فائدہ اٹھارہے ہیں۔
کسی میں معاشرے کی ترقی کیلئے وہاں رہنے والے تمام مذاہب، مسالک، رنگ و نسل کے لوگوں میں اخوت، پیار، محبت، بھائی چارہ، ہم آہنگی، رواداری اور برادشت بہت ضروری ہے۔
وادی کشمیرمیں بھی مختلف مذاہب، مسالک اور رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے شہری بستے ہیں، جو ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور اخوت سے رہتے ہیں۔وادی کشمیر کو صوفی، سنتوں اور ریشی منیوں کی سرزمین کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ ریشیوں اور صوفی سنتوں نے آپسی بھائی چارے کی فضا کو قائم و دائم رکھنے کے لئے نہ صرف درس دیا بلکہ وہ آپسی میل میلاپ اور مذہبی رواداری کے حسین امتزاج کو بر قرار رکھنے کے لئے وقت وقت پر نصیحت بھی کرتے رہے ہیں۔
اسی بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کی صدیوں پرانی روایت کی زندہ مثال سرینگر کے کوہ ماراں کے دامن میں واقع حضرت شیخ حمزہ مخدوم کے اس آستانہ عالیہ اور اس کے عقب میں موجود مندر اور گردوارے سے ملتی ہے، جہاں مخدوم صاحب کے متصل اس مسجد کی آذان، مندر کی گھنٹی اور گردوارے کا کیرتن ایک ساتھ سنائی دیتا ہے۔
یہ جگہ صدیوں کی مذہبی روادری اور اور آپسی میل میلاپ کا خوبصوت سنگم پیش کرتی ہے، وہیں اس زیارت گاہ میں نہ صرف مسلم براداری کا تانتا بندھا رہتا ہے بلکہ اپنی من کی مرادوں کو پورے کرنے کے لئے دوسرے عقائد کے لوگ بھی حاضری دینے آتے ہیں۔
مذہبی ہم آہنگی کی شاندار علامت مزید پروان چڑھتے ہوئے ہمیں اس وقت دیکھنے کو ملی جب اس مندر کے اندر جانے کے لئے دروازہ اس مقامی مسلمان نے کھولا جو گزشتہ تین دہائیوں سے اس مندر کی دیکھ ریکھ کررہا ہے اور یہ ہر آنے والا کا بلالحاظ مذہب وملت اور بلاتفریق رنگ ونسل استقبال کرتا ہے۔یہاں کا صدیوں پرانا بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی صرف ہندو مسلم برادری تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وادی میں مقیم سکھ برادری بھی سماجی ہم آہنگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔
چھٹی پادشاہی کے گردوارے میں نہ صرف سکھ برادری کے لوگ صبح شام کیرتن کے لئے آتے ہیں بلکہ مسلمان اور ہندو طبقے سے وابستہ لوگ بھی یہاں آتے رہتے ہیں۔
وادی کشمیر کے اس بھائی چارے، آپسی میل میلاپ اور مذہبی رواداری کے اس مضبوط رشتے پر نامسائد حالات یا کوئی اور بحران اثر انداز نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوسکتا ہے کیونکہ کشمیر ہمیشہ سے ہندو مسلم سکھ اتحاد کا گہوارہ رہا ہے جبکہ کشمیر کی مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کو زک پہنچا نے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی ۔