جموں وکشمیر انتظامیہ اگرچہ انتظامی سطح پر بے حد کوشش کر رہی ہے کہ وادی میں ہر شعبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔
تاکہ عام لوگوں کو راحت وسکو ن میسر ہو سکے، لیکن زمینی سطح پر عا م لو گ ان تبدیلیوں کیلئے ہر گز تیار نظر نہیں آرہے ہیں ۔
پانی ہو یا بجلی ،ٹریفک ہویا ٹیکس ،محکمہ مال ہو جنگلات کوئی بھی ملازم یا ان شعبوں سے جڑے عام لوگ حسب سابقہ اپنی من مانی کرتے نظر آرہے ہیں ۔
اگر ہم صرف ٹریفک نظام کو بہتر بنانے کی بات کریں، تو انتظامیہ ہر برس ٹریفک ہفتہ اس غرض سے مناتی ہے کہ عا م لو گ ٹریفک قوانین سے باخبر ہو سکے ۔
اس کے باوجود بھی لوگ ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔ نوجوان موٹر سائیکل سوار ہر گز ہیلمٹ پہننے کیلئے تیار نہیں ہو جاتے ہیں ،باوجود اسکے اُن کو چالان کیا جاتا ہے اور اُن کی موٹر سائیکل سیز کی جاتی ہے ۔کوئی بھی پرائیویٹ گاڑی چلانے والا بیلٹ نہیں پہنتا ہے ۔
جہاں تک مسافر گاڑیوں کا تعلق ہے وہ بھیڑیکریاں سمجھ کر سواریو ں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں ۔تقریباً کوئی بھی مسافر گاڑی بغیر اُوور لوڈنگ کے بس اسٹاپ سے چلنے کو تیار نہیں ہوتی ہے ۔
من مرضی کے مطابق ڈرائیور جہا ں چاہے سواری بھرنے کیلئے گاڑی کھڑی کر تاہے ۔اگر کوئی سواری مجبور ہو کر ڈرائیور یا کنڈیکٹر سے اس بارے میں کچھ کہے تو وہاں سے یہی جواب ملتا ہے کہ آپکے لئے یہ گاڑی نہیں ہے بلکہ آپ کو ٹیکسی میں سوار ہونا چاہیے ۔
یہی حال دوسرے شعبوں کا بھی ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ جب تک عام آدمی خود بدلنے کی کوشش نہیں کرے گا تب تک اُسکو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک میں لوگ واقعی خود کو تبدیل کر چکے ہیں ۔لہٰذا اُن میں ہر قسم کی بہتر سوچ ہے نہ وہ مفت خوری پر یقین رکھتے ہیں نہ ہی وہ کسی قسم بجلی چوری یا ٹیکس چوری کرتے ہیں،نہ ہی وہ رشوت دیتے ہیں اور نہ ہی وہ اُوور لوڈ میں سفر کریں گے، جیسا کہ یہاں ہوتا ہے، تبدیلی کیلئے لازمی ہے کہ ہمیں خود بدلنا چاہیے ۔سرکار یں بدلنے سے کچھ نہیں ہو گا ۔