روزہ کی روح۔۔۔

روزہ کی روح۔۔۔

رمضان جیسا برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے، اس میں ایمان وتقویٰ کی بنیاد پر ہر مومن بندہ اپنے اپنے ظرف اور اپنی اپنی ہمت کے مطابق اس کی برکتوں اور رحمتوں سے لطف اندوز ہوگا۔

اس ماہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے۔ اس مہینے میں رحمتِ خداوندی کا دریا موجزن ہوتا ہے۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا بخشش اور تیسرا دوزخ سے آزادی کا ہے۔

یہ مہینہ نورانیت میں اضافہ، روحانیت میں ترقی، اجر و ثواب میں زیادتی اور دعاﺅں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔

جو شخص ان بابرکت اوقات میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کی دولت سے محروم رہے اور دریائے رحمت کی طغیانی کے باوجود حصولِ رحمت کے لیے اپنا دامن نہ پھیلائے، اس سے بڑھ کر محروم کون ہوسکتا ہے؟ اس ماہ میں کرنے اور کچھ نہ کرنے کے کاموں کی فہرست دی جاتی ہے: روزہ تو ہر عاقل، بالغ مرد اور عورت پر فرض ہے، رات کی تراویح سنت ہے۔

اس کے علاوہ تلاوتِ قرآنِ کریم، ذکرِ الٰہی، دعا، استغفار اور نوافل: اشراق، چاشت، اوابین، تہجد اور صلوٰة التسبیح کا حتی الامکان اہتمام کیا جائے۔

۲:جھوٹ، بہتان، غیبت، حرام خوری اور دیگر تمام آلودگیوں سے پرہیز کیا جائے۔۳: بے فائدہ اور لایعنی مشاغل سے بھی احتراز کیا جائے، کیونکہ بے مقصد مشاغل انسان کو اپنے مقصدسے ہٹادیتے ہیں۔ ۴: دلوں کو کینہ، بغض اور عداوت کے کھوٹ اور میل سے پاک اور صاف رکھا جائے، کیونکہ جس دل پر ان مہلک چیزوں کا اثر ہو اس دل پر نور، برکت اور رحمت کی بارش کماحقہ اثر نہیں کرسکتی۔

۵: اس ماہِ مبارک کا دل، زبان اور عمل سے احترام کرنا بھی لازم ہے، بعض لوگ اس مہینہ میں بھی کھلے عام کھاتے پیتے ہیں اور روزہ پر طنز کرتے ہیں، یہ گستاخی نہایت سنگین ہے اور اس سے ایمان سلب ہونے کا اندیشہ ہے۔ روزہ کی فرضیت کا مقصد اور اس کی روح تقویٰ کو قرار دیا گیا ہے۔

انسان کی ظاہری وباطنی چیزوں اور لباس وپوشاک کی خوشنمائیوں سے زیادہ مکرم، زیادہ مزین، زیادہ حسین اور زیادہ فضیلت والی چیز تقویٰ ہے۔تقویٰ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کے اوامر کی بجاآوری اور نواہی سے اجتناب‘ ان تمام چیزوں سے زیادہ مکرم، مزین، افضل اور احسن ہے، جنہیں ہم چھپاتے ، ظاہر کرتے ، ذخیرہ کرتے اور پہنتے ہیں۔تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ثواب کی تمنا اور امید پر آپ کے تمام اوامر اور احکامات پر عمل کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی سزا کے خوف سے آپ کے تمام نواہی کو ترک کیا جائے۔

تقویٰ کا حق یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے تمام احکامات پر پورا پورا عمل کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی منع کردہ ہر ہر چیز سے اجتناب اور پرہیز کیا جائے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان اپنے رب کا اطاعت گزار ہوگا‘ اس کا نافرمان نہیں ، اس کا ذاکر ہوگا‘ اس کو بھولنے والا نہیں ، اس کا شکرگزار ہوگا‘ ناشکرا نہیں ، وہ ایمان اور توکل کی دولت سے مالا مال ہوگا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے صرف اہلِ ایمان کو ہی تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا، کیونکہ اہلِ ایمان ہی جانتے ہیں کہ تعظیم و جلالت، توقیرو محبت، طاعت و بندگی کا مستحق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اور اسے ایمان اور تقویٰ کا حکم دیا، جب انسان نے اپنا مقصد بھلادیا تو دنیا وآخرت میں اس کی کوئی قیمت نہیں رہی، بلکہ اس سے بڑھ کر قیامت کے دن اس سے محاسبہ بھی ہوگا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.