تحریر:شوکت ساحل
جموں وکشمیر میں جون2018سے صدر راج نافذ ہے ۔طویل ترین عرصے تک صدر راج نافذ رہنے کی کئی وجوہات ہیں ۔
اول پی ڈی پی ۔بھاجپا حکومتی اتحاد کا ٹوٹنا اور بعد ازاں 5اگست2019کو جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے بعد تقسیم ریاست کا وجود بھی ہے ۔
دو مرکزی زیر انتظام حصوں میں منقسم جموں وکشمیر اب جموں وکشمیر اور لداخ یونین ٹریٹری کہلاتا ہے ۔
گزشتہ چار برسوں سے جموں وکشمیر کے عوام عوامی حکومت سے محروم ہیں اور یہ حقیقت ہے ۔مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ نہیں چاہتی کہ جموں وکشمیر میں صدر راج نافذ رہے ۔
تاہم یہ راج ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نئی حد بندی یعنی حلقہ بندی کا عمل مکمل ہوجائے ۔لوک سبھا میں بدھ کے روز دہلی میونسپل کارپوریشن (ترمیمی) بل پر بحث کے دوران حزب اختلاف کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے مرکزی حکومت پر جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں تاخیر کا الزام عائد کیا ہے۔وزیر داخلہ امت شاہ نے بدھ کے روز کہا کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات حد بندی کی مشق مکمل اور سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد منعقد ہوں گے۔
انہوں کہا کہ’ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہا جموں و کشمیر کو صدر راج میں رکھاجائے۔انہوں نے کہا مرکز کے زیر انتظام علاقے میں پہلے پنچایتی انتخابات منعقد ہوئے، اس کے بعد حد بندی کی مشق ہوگئی، جس کے بعد اسمبلی انتخابات ہوں گے، اور پھر جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا۔امت شاہ نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں پنچایتی انتخابات بغیر کسی تشدد کے منعقد ہوئے ہیں۔
ڈی ڈی سی انتخابات بھی ختم ہو چکے ہیں۔ اور حد بندی مشق تکمیل پر ہے۔ میں ایک بار پھر یہ کہنا چاہوں گا، کہ حد بندی مکمل ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد جموں و کشمیر میں انتخابات منعقد ہونگے۔وزیر داخلہ کے اس بیان سے یہ تو واضح ہوگیا کہ جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات ہوں ،لیکن کب ہوں ،یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔
حالیہ دنوں جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد 107 سے بڑھا کر114 کرنے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے۔یہ عرضی جموں و کشمیر کے دو باشندوں نے دائر کی تھی۔
عرضی گزار نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جموں و کشمیر میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ، جیسا کہ جے کے ری آرگنائزیشن ایکٹ، 2019 میں فراہم کیا گیا ہے، آئینی دفعات جیسے آرٹیکل 81، 82، 170،330 اور332 اور خاص طور پر قانونی دفعات جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ، 2019 کی دفعہ 63 کے خلاف ہے۔
پٹیشن میں مانگ کی گئی ہے کہ 6مارچ 2020 کے نوٹیفکیشن کو حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر اور آسام، اروناچل پردیش، منی پور اور ناگالینڈ کی ریاستوں میں حد بندی کرنے کیلئے حد بندی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔
لیکن 3 مارچ2021 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے آسام، اروناچل پردیش، منی پور اور ناگالینڈ کو حد بندی کے عمل سے الگ کیا گیا لہٰذا صرف جموں و کشمیر علاقے کے لیے حد بندی کرنا غیر آئینی ہے کیونکہ یہ درجہ بندی کے مترادف ہے اور آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ آخری حد بندی کمیشن حد بندی ایکٹ 2002 کے سیکشن 3 کے ذریعے حاصل اختیارات کے استعمال کے ذریعہ 12 جولائی 2002 کو قائم کیا گیا تھا، جو2001 کی مردم شماری کے بعد پورے ملک میں اس مشق کو انجام دینے کے لیے کی گئی تھی۔
بہرکیف قانونی اور آئینی نکات اپنی جگہ ،لیکن جموں وکشمیر کے عوام کو اس وقت جس محرومی کا سامنا ہے ،وہ عوامی حکومت ہے ۔
کیوں کہ عوامی حکومت کی عوام کی صحیح ترجمانی کرسکتی ہے اور عوامی مسائل کا ازالہ ممکن ہے ۔
ملک ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے ،جسکی بنیاد آئین ہے اور آئین ہند میں عوامی حکومت کی تشکیل واضح ہے ،جسے کسی بھی انحراف نہیں کیا جاسکتا ۔ جمہوریہ بھارت کا دستور اعلیٰ ہے۔
اس ضخیم قانونی دستاویز میں جمہوریت کے بنیادی سیاسی نکات اور حکومتی اداروں کے ڈھانچہ، طریقہ کار، اختیارات اور ذمہ داریوں نیز بھارتی شہریوں کے بنیادی حقوق، رہنما اصول اور ان کی ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا ہے۔
آئین ہند دنیا کا سب سے ضخیم تحریری دستور ہے اور آئین ہند کی مجلس مسودہ سازی کے صدر بھیم راو¿ رام جی امبیڈکر کو عموماً اس کا معمار اعظم کہا جاتا ہے۔
آئین ہند کے مطابق بھارت میں دستور کو پارلیمان پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ اسے مجلس دستور ساز نے بنایا تھا نہ کہ بھارتی پارلیمان نے آئین ہند کی تمہید کے مطابق بھارتی عوام نے اسے وضع اور تسلیم کیا ہے۔
پارلیمان آئین کو معطل نہیں کر سکتی ہے۔آئین ہند بھارت کو آزاد، سماجی، سیکیولر اور جمہوری ملک بناتا ہے جہاں عوام کے تئیں انصاف، مساوات اورعزمت کو یقینی بناتا ہے۔سیاسی جماعتیں ،جو عوام کا ووٹ لیکر مسند اقتدار پر بیٹھتی ہیں ،اسی آئین کا حلف اٹھاتی ہیں ،جو اس بیانات تک محدود ہیں ۔ویسے کسی قلمکار نے خوب کہا ہے کہ میوزیکل چیئرز ایک ایسا کھیل ہے جسے تیار تو بچوں کے لیے کیا گیا ہے لیکن اسے کھیلتے سیاستدان ہیں۔
ایسے میں کیا کرنے کی ضرورت ہے ،یہ کہنی کی ضرورت نہیں ۔