اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ جموں وکشمیر خاصکر وادی میں رشوت ستانی کا بول بالا تھا اور بنا رشوت کے کوئی بھی کا م نہیں ہوتا تھا ،جب سے جموں وکشمیر مرکز کے زیر انتظام والا علاقہ بن گیا، تب سے کسی حد تک رشوت ستانی میں کمی آگئی اور اکثر ملازمین رشوت لینے سے کتراتے ہیں اور اگر رشوت لیتے بھی ہیں تو انتہائی ہوشیاری اور چترائی سے لیتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں ایس ایس پی سرینگر نے ایک پولیس اہلکارکو رشوت لینے کی پاداش میںفی الحال معطل کر دیا ہے جبکہ ایس ایچ اﺅ نشاط کو پولیس لائنز سرینگر میں لائن حاضر کیا گیا ۔یہ خبر پھیلتے ہی عوامی حلقوں میں زبردست خوشی ومسرت کا اظہار دیکھنے کو ملی کہ ایک پولیس آفیسر کےخلاف رشوت لینے کی پاداش میں کارروائی کی گئی ۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے میں تباہی پھیلنے کی بنیادی وجہ رشوت ستانی ہوتی ہے اور ایسے سرکاری ملازمین کےخلاف نہ صرف نوکریوں سے برطرف کر کے کارروائی کرنی چاہیے بلکہ اُ ن کی زمین وجائیدادوں کو بھی ضبط کر کے سرکار ی خزانے میں ڈال دینا چاہیے جنہوں نے رشوت کی بناءپر کروڑوں روپے کی املاک جمع کی ہے ۔
یہاں یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہےں کہ اکثر سرکاری دفتروں میں ملازم بہتر ڈھنگ سے کام نہیں کرتے ہیں اور جان بوجھ کر دفتری طوالت سے کا م لیتے ہیں۔
اس طرح عام لوگوں کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ ایل جی انتظامیہ کو ایسے افسران اور ملازمین کےخلاف بھی بروقت کارروائی کرنی چاہیے جن کی کارکردگی ناقص اور کمزور ہے ۔
سرکار نے اگرچہ ملازمین کی ہر سال کارکردگی کی بنیاد پر ترقی اور تنزلی کا قانون بنایا ہے ،اُسے عام لوگوں کے کام کاج میں بہتری آنے کی اُمید ہے لیکن شرط یہ ہے کہ سرکار نے جو کہا ہے اگر وہ اُس پر عمل پیرا ہوتی ہے ۔
ورنہ اسے قبل بھی غلام نبی آزاد کی سربراہی والی سرکار نے رشوت ستانی کےخلاف اقدامات اُٹھانے کا وعدہ کیا تھا اور ملازمین کی کارکردگی کی بنیاد پر ترقی اور تنزلی کا پیغام سنایا تھا لیکن یہ معاملہ حکم نواب تادر نواب ہی ثابت ہوا۔اب کی بار چونکہ مرکز میں مودی سرکار ہے ۔
لہٰذا اُمید کی جاتی ہے کہ جموں وکشمیر میں بھی دفتری نظا م درست ہو گا اور لوگوں کے مسائل جلد ازجلد حل ہونے کی اُمید کی جا سکتی ہے جنہیں ابھی بھی رشوت نہ دینے کی بناءپر دفتری طوالت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔