تحریر:شوکت ساحل
وادی کشمیر میں موسم بہار کی دستک کیساتھ ہی شجر کاری مہم بھی بڑے پیمانے پر شروع ہوتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پودے لگا کر ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھا جاسکے ۔
شجر کاری مہم کے دوران طرح طرح کی تقاریب بھی منعقد کی جاتی ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کے منفی اثرات کو اُجا گر کیا جاتا ہے ۔
یہ سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے ۔ماحولیات کو آلودہ کرنے میں عصر حاضر میں پولی تھین کا استعمال تباہ کن ثابت ہورہا ہے ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پلاسٹک کی ایجاد کے بعد سے دنیا بھر میں اس کا استعمال جتنی تیزی سے بڑھا ہے وہ حیران کن بات نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنوعی طورپر تیار کردہ یہ مادہ اپنی مضبوطی،لچک اور ہر شکل میں ڈھل جانے کی وجہ سے ہر طرح کے کام آسکتا ہے۔
لیکن اس کی یہ ہی خصوصیات ماحول اور جان داروں کے لیے بہت مہلک ثابت ہورہی ہیں،کیوں کہ اس سے تیار شدہ ہر قسم کی اشیا دنیا بھر میں بہت تیزی سے استعمال ہونا شروع ہوئیں اور پھر وہ کچرے میں بھی شامل ہونے لگیں۔
اس مادے کی سب سے تباہ کن خصوصیت یہ ہے کہ یہ دہائیوںبعد بھی پوری طرح تحلیل نہیں ہوتا، یعنی یہ ’بایو ڈی گریڈ ایبل ‘نہیں ہے اور فطری طریقے سے ماحول کا حصہ نہیں بن پاتا۔اور یوں ماحول کے لیے نقصان کا سبب بنتا ہے۔
یہ درست ہے کہ آج پلاسٹک ہماری زندگی میںبہت اہمیت کا حامل ہے اور اگر یہ نہ ہوتا تو شاید ہم بہت سی سہولتوں سے محروم رہتے۔
لیکن دوسری جانب یہ ماحول کو جس تیزی سے نقصان پہنچارہا ہے وہ بہت تشویش ناک بات ہے۔ اس وجہ سے دنیا بھر میں اس کے محفوظ انداز میں استعمال پر آج کل بہت توجہ دی جارہی ہے۔
دراصل پلاسٹک مصنوعی طورپر تیار کردہ ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صحت و صفائی اور جنگلی حیات کے لیے بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ چناں چہ ماہرین پلاسٹک بیگزکے متبادل کے طورپر کپڑے کے تھیلے استعمال کرنے کی تجویز دیتے ہیں جو کافی عرصے تک استعمال کیے جاسکتے ہیں اور پھینکے جانے پر تھوڑے ہی عرصے میں تحلیل ہوکر زمین کا حصہ بن جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں پولی تھین بیگز عفریت کی صورت اختیار کرچکے ہیںجو زمین ،ہوا اور آبی ذخائر کویک ساں طور پر متاثر کر رہے ہیں۔
کپڑے کے تھیلے مارکیٹ میں سلے سلائے بھی ملتے تھے اور خواتین گھروں میں خود بھی سی لیتی تھیں۔مگر آج آپ بازارکا رخ کریں توہر سودا سلف خریدنے والا ہاتھ میںپولی تھین بیگ تھامے ہوئے دکھائی دے گا۔
ایک پاﺅلیموں سے لے کر کپڑوں تک ہر چیز آپ کو پولی تھین بیگز میں مل جاتی ہے۔جموں وکشمیر میں پولی تھین کے استعمال پر مکمل پابندی ہے ،لیکن ہزاروں ،کوئنٹل پولی تھین پھر بھی جموں وکشمیردر آمد ہوتا ہے ۔
پابندی کے باوجود ایسا ہونا خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔کنی پورہ کولگام کی 48 سالہ ناصرہ اختر کی کوششیں رنگ لائی، بیوہ ہونے کے علاوہ دو جواں سال بیٹوں کی ماں نے دنیا کے سامنے ایک نئی ایجاد پیش کی، جس میں پولی تھین کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کا نسخہ بتایا گیا۔
ناصرہ اختر نے پولی تھین کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے بہت پہلے سے کام شروع کیا۔ تاہم اس کے کام کی تب پذیرائی ہوئی، جب انہیں انڈیا بک آف ریکارڈز، کلامز بک آف ریکارڈز اور ان دنوں ایشیا بک آف ریکارڈز کے اعزازت سے نوازا گیا۔
اس خاتون کی ایجاد کو اب ٹیکنالوجی کی شکل دینے کی ضرورت ہے ۔تاکہ ہما را ماحول ،جس پر انسانی بقا قائم ودائم کو محفوظ اور صاف وشفاف رکھا جاسکے ۔