رنگدار کلاس روم۔۔۔

رنگدار کلاس روم۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

اس حقیقت سے قطعی طور انکار نہیں کیا جاسکتا ہے عصر ِ حاضر میں تعلیم بھی دو خانوں میں منقسم ہو کر رہ گئی ہے ۔جی ہاں ! تعلیم کو سرکاری اور نجی شعبہ جات نے منقسم کررکھا ہے ۔

سرکاری اپنی پالیسی کے مطابق سرکاری اسکولوں میں نئی نسل کو تعلیم سے آراستہ کرتی ہے جبکہ نجی اسکولوں کا معیار ِ تعلیم خود ساختہ قوانین وضوابط کے ماتحت ہے۔

گورنمنٹ اسکول اور نجی اسکول کے درمیان بنیادی فرق ان کی مالی اعانت اور انتظامیہ سے ہے۔

ناموں کے مطابق ، سرکاری اسکولوں کو مقامی ، ریاستی یا قومی حکومت کے زیر انتظام اور مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے جبکہ نجی اسکولوں کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر طلباءکی ٹیوشن کے ذریعہ مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے اور ایک نجی ادارہ زیر انتظام ہوتا ہے۔

نجی اسکول حکومت کی مداخلت سے بڑی حد تک آزاد ہیں۔

ان دو بڑے اختلافات کی بنا پر ، سرکاری اسکولوں اور نجی اسکولوں کے مابین دیگر اہم اختلافات کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

سرکاری اسکول پرائمری یا سیکنڈری اسکول ہیں جو مقامی ، ریاستی یا قومی حکومت کے ذریعہ مالی اعانت اور کنٹرول کے بغیر ، بغیر کسی چارج کے تمام بچوں کے لئے لازمی یا پیش کیے جاتے ہیں۔

چونکہ ان کی حکومت کی مدد ہے ، لہذا وہ مکمل طور پر یا جزوی طور پر مالیہ کے ذریعہ فنڈز فراہم کرتے ہیں۔چونکہ سرکاری اسکولوں پر حکومت کا کنٹرول ہے ، اس لئے نصاب کا فیصلہ ریاست یا قومی سطح پر کیا جاتا ہے۔

تمام سرکاری اسکول ایک ہی نصاب کی پیروی کرتے ہیں۔داخلہ اور جانچ کا انتظام بھی حکومت کرتی ہے۔ سرکاری اسکول میں داخلہ طالب علم کے پتے سے طے ہوتا ہے۔

اسکولوں کا تعلق ان طلباءکو لینے کا پابند ہے جو اپنے جغرافیائی زون سے تعلق رکھتے ہوں۔

اگرچہ ٹیکنالوجی اور دیگر سہولیات اسکولوں کے مطابق مختلف ہوتی ہیں ، لیکن سرکاری اسکولوں میں عام طور پر نجی اسکولوں کے مقابلے میں کم سہولیات میسر ہوتی ہیں۔

سرکاری اسکولوں میں بھی پرائیویٹ طلباءکی نسبت زیادہ تعداد میں طلبہ موجود ہیں۔ سہولیات کے فقدان کی وجہ سے کلاس میں طلباءکی تعداد بھی کافی زیادہ ہوسکتی ہے۔ تاہم ، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سرکاری اسکول ہمیشہ اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔

اساتذہ کو لازمی طور پر تمام سرکاری ضروریات کو پورا کرنا چاہئے اور ایک سرکاری اسکول میں کام کرنے کے لئے اپنے مضمون میں ہنر مند ہونا چاہئے۔ایک نجی اسکول کی مالی اعانت نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کے زیر انتظام ہے۔

ان کا کنٹرول نجی ادارہ کے ذریعہ ہوتا ہے اور وہ جزوی یا مکمل طور پر طالب علم کی ٹیوشن کے ذریعہ مالی اعانت فراہم کرتا ہے۔ نجی اسکولوں میں عام طور پر فیس زیادہ ہوتی ہے۔

اسی وقت ، جب سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں نجی اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کی بہتر سہولیات اور جدید ترین ٹکنالوجی موجود ہوتی ہے۔اسکول کے نصاب کا فیصلہ اسکول بورڈ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔

لہٰذا ، ان کے پاس مشترکہ نصاب نہیں ہے۔

اسکول انتظامیہ فیس اور داخلے کا بھی فیصلہ کرتے ہیں۔

اسکول میں یہ فیصلہ اختیار ہوتا ہے کہ آیا کوئی طالب علم داخلے کی ضروریات کو پورا کرتا ہے یا نہیں؟۔ اسکول نے اساتذہ کی بھرتی کے معیار کا بھی فیصلہ کیا۔

اس معاملے میں ، نجی اسکول میں ٹیچر کو سرکاری اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے اہل نہیں کیا جاسکتا ہے۔اعداد وشمار کے مطابق وادی کشمیر میں2ہزار269پرائیویٹ اسکول ہیں، جن میں ایک ہزار175پرائمری اسکول ،810مڈل اسکول ،247ہائی اسکول اور37ہائر اسکینڈری اسکول ہیں ۔

نجی اسکولوں کی من مانیوں سے کوئی بھی شخص غیر واقف نہیں ۔آئے روز شاہی فرمان نے والدین کو الجھنوں میں ڈال کر رکھ دیا ہے ۔سرکاربھی لگام کسنے میں ناکام ہورہی ہے ۔

کیوں کہ یہاں تعلیم کے نام پر سرمایہ کاری ہورہی ہے اور بڑے سرمایہ کاروں نے تو تعلیم کو ہی یرغمال بنا رکھا ہے ۔

ایک نامور نجی اسکول نے ایک ہی کلاس روم میں رول نمبرکی بنیاد پر وردی (یونیفارم )کے رنگ مقرر کئے ہیں ۔

رول نمبر ایک سے نو تک سرخ رنگ ،رول نمر دس سے اٹھارہ تک پیلا ،انیس سے پچیس تک سبز اور چھبیس سے اڑتیس تک نیلا رنگ مقرر کیا ہے ۔

یہ ہے نجی اسکول کا رنگ دار کلاس روم ہے ۔۔۔کیا رنگ دار کلاس روم سے معیار ِ تعلیم کو بہتر بنایا جاسکتا ہے؟ ۔وردی ،اگر ایک ہی رنگ کی ہو تو بہتر ،کیوں کہ اس سے بچے احساس ِ کمتری کے شکار نہیں ہوتے ۔

وردی کو رنگدار نہیں بلکہ تعلیم کے معیار کو رنگ دار کرنے کی ضرورت ہے اور اسی پر توجہ مرکوز کرنا ناگزیر ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.