اپنی اپنی بساط اور سوچ کے مطابق ہر ایک فرد کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ معاشرے کے سدھار کیلئے اپنی خدمات پیش کرے ۔
بھرے بازار میں ہم ایک دوسرے کی پکڑی اُچھال کر اپنے آپکو زلیل وخوار کرکے رکھ دیتے ہیں ۔
پہلے ایام میں صرف سیاستدان حضرات ہی ا س مرض میں مبتلاءتھے ،اب پوری قوم اس وباءکے زد میں آگئی ہے ۔
اب ہر طبقے سے وابستہ افراد صرف ایک دوسرے کی مخالفت کرتے کرتے اپنی دنیا وآخرت برباد کردیتے ہیں ۔ایک دوسرے کی پکڑی اُچھا ل لیتے ہیں ۔
دنیا پرستی اور مال ومتاع کے غرور میں ان لوگوں کو اس بات کا خیال بھی نہیں رہتا ہے کہ اس دنیا میں بڑے بڑے سرما،لیڈر اور بادشاہ آچکے ہیں، جن کا ایک زمانے میں سکہ چلتا تھا لیکن وقت کی دیمک نے اُنہیں اس طرح کھوکھلا کر کے رکھ دیا کہ اُن کا کہیں اب نام ونشان نظر نہیں آرہا ہے ۔
تاجر ہو یا مزدور ،سیاستدان ہو یا صحافی ،ماتحت ہو یا آفیسر وقت آنے پر سب کو امتحان سے گزرنا پڑے گا اورکامیاب وناکامی کی صورت میں سزاءوجزاءمل جائے گی۔
لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی دنیا وآخرت بچا کر رکھ لیں اور جس مقصد کیلئے قدرت نے ہمیں بنایا ہے اُس مقصد کو پورا کرنے میں ہی وقت گزاری کریں ،عم کاک ،ممہ کاک کو یہی کچھ جہلم کے کنارے کہہ رہا تھا اور میں نے سن لیا اور تحریر کر لیا تاکہ سندرہے ۔