تصوف کی آڑ میں

تصوف کی آڑ میں

تمام مذاہب کے ماننے والے اس بات پر متفق ہیں کہ جو انسان خود شناس ہو وہ دوسروں کو بھی اپنا سمجھ لیتے ہیں ۔

ایسے لوگوں کے سامنے نہ مذہب نہ دولت اور نہ شہرت کوئی معنی رکھتی ہے نہ غربت وافلاس اور نہ ہی عیش وعشرت اُن کے سامنے کوئی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ خود شناس ہو کر خداشناس بن گئے ہوتے ہیں۔

غالباً اسی عمل کو تصوف کا نام دیا گیا ہے ۔بدقسمتی ہے وادی کشمیر جس کو ایک زمانے میں صوفیوں ،ولیوں ،ریشیوں اور منیوں کا مسکن مانا جاتا تھا ،میں اب بہت سارے لوگوں نے صوفیت کو ایک پیشہ بنایا ہے، وہ اس کی آڑ میں نام ،دولت اور شہرت کمانے میں لگے ہوتے ہیں ۔

وہ اسکی آڑ میں شعریت کا پاس ولحاظ بھی نہیں رکھتے ہیں ۔لوگوں کا مال وجائیداد ہڑپ کر لیتے ہیں ،لوگوں کے اثر ورسوخ اور عہدے کا غلط فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔کچھ لوگ ایسے وظائف حاصل کرتے ہیں جن کی بناءپر وہ لوگوں کو اپنا کرویدہ بنا لیتے ہیں اسے ہر گز تصوف کا نام نہیں دیا جا سکتا ہے خود شناس لوگ اپنی مستی میں مگن ہوتے ہیںاور دن رات صرف اللہ کو یاد کر تے ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.