آج کے حالات ۔۔۔۔

آج کے حالات ۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

آج کی بات کا آغاز ہم ’امتیاز دانش ندوی‘ کی اس غزل سے کرتے ہیں ۔۔۔
وہ اب جنگ و جدل کچھ بھی نہیں ہے ،نہیں دشت و جبل کچھ بھی نہیں ہے
خسارے کا بدل کچھ بھی نہیں ہے ،مگر ماتھے پہ بل کچھ بھی نہیں ہے
عجب خوش شکل اور خوش پوش ہے وہ ،شکن کوئی نہ شل کچھ بھی نہیں ہے
ہر اک شے آسماں پر ہے سلامت ،زمیں پر بر محل کچھ بھی نہیں ہے
اسے بھی کھو کے کتنے مطمئن ہیں ،وہ شے جس کا بدل کچھ بھی نہیں ہے
غنیمت جانیے ہے آج جو کچھ ،یہ مت کہیے گا کل کچھ بھی نہیں ہے
کریں گے رخ ادھر کیسے پرندے ،شجر پہ پھول پھل کچھ بھی نہیں ہے
الٰہی تیری رحمت سے ہے امید ،ہمارا تو عمل کچھ بھی نہیں ہے
جسے خوف خدا ہر دم ہے دانش،اسے خوف اجل کچھ بھی نہیں ہے

در اصل یہ غزل دنیا کے اُن حالات کی عکاس ہے ،جس کا سامنا بلواستہ یا بلاواستہ ہر ایک انسان کو ہے ۔

یعنی انسانیت کو اس وقت (روس ۔یوکرین ) جنگ کی صورت کے نتیجے میں جن حالات کا سامنا ہے ،اُس کا خمیازہ صرف یوکرینی عوام کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے ایک انسان بھگتنا پڑ رہا ہے ۔

کوئی انسان کیسے بچوںکو بارود کے ڈھیر جلتا ہوا دیکھ سکتا ہے ؟کیسے لوگوں کو بے گھر ہوتے ہوئے دیکھ سکتا ہے ؟اور کیسے تعلیم چھوڑ کر جان بچانے والے طلبہ کو دیکھ سکتا ہے ۔

پوری دنیا میں ہتھیاروں کی ایک ایسی دوڑ شروع ہوئی ہے اور طاقت کا نشہ سر چڑ ھ کر بول رہا ہے ،جس کی منزل تباہی وبربادی ہے ۔

یوکرین پر روس کی فوج کشی کے بعد صورت حال کی سنگینی اور مغربی ملکوں کی یوکرین کے لیے عسکری امداد کی شکل میں جنگی سرگرمی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اس سے یہ خدشہ ہر لمحے قوی تر ہوتا جارہا ہے کہ مغربی اقوام ایک بار پھر گزشتہ صدی کے پہلے نصف میں ہونے والی دو عالمی جنگوں جیسے حالات کی طرف بڑھ رہی ہیں۔

تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ دنیا کی ضرورت جنگ نہیں،امن ہے کیونکہ بڑی عسکری طاقتوں کے پاس موجود تباہ کن ہتھیاروں کے وسیع ذخائر کا برائے نام حصہ بھی پورے کرہ ارض کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

عالمی انسانی برادری کو اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے یوکرین تنازع کے پرامن حل کو یقینی بنانا چاہیے۔

ترک وزیر خارجہ نے دونوں ملکوں میں ثالثی کی پیش کش کرکے مسئلے کے حل کیلئے درست سمیت کی نشان دہی کردی ہے۔

دوسرے مغربی ملکوں کی بھی جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے کے بجائے تنازع کے حل کیلئے مصالحت کے ذریعے تنازع کے منصفانہ تصفیے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا کیلئے یہی سلامتی کی واحد راہ ہے۔

امن ایک ایسی نایاب چیز ہے جس کی طلب ہر انسان کو ہوتی ہے، پر یہ اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آتی۔ امن کچھ محنت، جتن اور قربانیاں مانگتی ہے۔

اس دنیا میں بسنے والے ہر انسان نے ہمیشہ امن و امان کی تمنا کی ہے ،پر آج تک مکمل طور پر اسے حاصل نہیں کر پایا۔

جہاں پوری دنیا میں آج سب سے بڑا مسئلہ ہی امن کے حصول کا ہے وہیں ہمارا ملک جموں وکشمیربھی امن و امان کا دلی خواہش مندہے۔

کیوں کہ ہمارا جموں وکشمیر گزشتہ تین دہائیوں کے طویل ترین نامساعد حالات کے سبب یہاں نہ صرف لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی تباہ ہورہی ہے بلکہ انسانی جانوں کا اتلاف مختلف اقسام کے تشدد کے نتیجے میں ہورہا ہے ۔یہ سلسلہ جاری ہے ،اب امن کو جگہ فراہم کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔

کیونکہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہ امن کا گہوارہ نہ بن جائے۔ دشمن اور دشمنی پالنے والوں نے جب کبھی بات کی تو ہمیشہ جنگ و جدل کی ہی بات کی۔ ان کی ہر چھوٹی بڑی بات اور اختلاف اسی جنگ جیسی چیز پر آکر رکتا ہے۔

کبھی جنگ وجدل کی دھمکیاں دیتا ہے، تو کبھی پورے غرور کے ساتھ موت کا رقص کرتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا جنگ سے ہم سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں ،یانہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.