تمنا اور آرزو

تمنا اور آرزو

ہر انسان کی کوئی نہ کوئی تمنا اور آرزو ہوتی ہے ۔قدرت نے انسانوں کے مختلف طبقے بنائے ہیں ،کوئی انسان دنیا کی تمنا کرتا ہے تو کسی کو دنیا کی بے ثباتی پر اتنا یقین ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے بجائے اصل اور ابدی زندگی کی تمنا کرتا ہے ۔

تمنا اور آرزو پر شاعروں نے قصیدوں کے قصیدے لکھ ڈالے ۔ ادیبوں اور دانشوروں نے پتہ نہیں کتنے اوراق سیاہ کئے ۔مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر ایک کی آرزو اور تمنا پوری نہیں ہوتی ۔

آجکل مادی دور میں انسان نے صرف اپنی نفسانی خواہشات کی تمنا اور آرزو میں زندگی گذارنے کی ٹھان لی ہے حالانکہ وہ یہ حقیقت اچھی طرح جان اور مان لیتا ہے کہ یہ تمنا اور آرزو وقتی ہے مگر پھر بھی انسان تمناﺅں کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر ہر تمنا پوری کرنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے ۔

تمناﺅں کی اس وادی میں دراصل انسان سرگرداں رہتا ہے اور جب اس کا آخری وقت آتا ہے تو اس وقت اسکی یہ تمنا ہوتی ہے کہ کاش یہ زندگی وفا کرتی ۔

زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے والا موت کی تمنا کرتا ہے اور موت کی تلخ حقیقت کا سامنا کرنے والا زندگی کی تمنا کرتا ہے ۔

مال وزر کا طلبگار مال ودولت کی تمنا کرتا ہے اور بھوکا شخص ایک روٹی کی تمنا کرتا ہے ۔عوام کا استحصال کرنے والا سیاستدان اپنی کرسی کی تمنا کرتا ہے اور جاہ وحشمت کا طلبگار اپنی عزت آن،بان اور شان وشوکت کی تمنا کرتا ہے ۔

تمنا اور آرزو کی یہ کہانی تب تک چلتی رہتی ہے جب تک انسان کی آنکھ کھلی رہتی ہے ۔

جب آنکھ بند ہونے کا وقت آتا ہے تو انسان حسرت ،ندامت اور پشیمانی کی حالت میں یہ تمنا کرتا ہے کہ اے کاش میں نے تمناﺅں کے سہارے جینا ترک کیا ہوتا……….اے کاش میں نے تمناﺅ ں کے سمندر میں آزﺅں کی تھپڑوں سے اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچایا ہوتا ۔

مگر اس وقت اسکی یہ تمنا بھی تمنا ہی رہتی ہے ۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.