تحریر:شوکت ساحل
موسم سرما کے دوران وادی کشمیر میں برفباری ہونا عام بات ہے ۔ہمالیہ کی گود اور چہاروں اطراف سے پہاڑوں سے ڈھکی وادی کوقدرت نے بیش بہا خزانوں سے نوازا ۔
خوبصورتی کے لحاظ سے وادی کشمیر پوری دنیا میں جنت ِ بے نظیر کا درجہ رکھتی ہے ۔شاعر بھی کہنے پر مجبور ہوگئے ’اگر فردوس بر روئے زمیں است ۔۔۔ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است ‘۔جہاں ہر موسم میں وادی کے قدرتی ،دلکش ودلفریب نظاروں سے لطف اندوز اٹھا نے کے لئے نہ صرف ملکی بلکہ دنیا بھر کے سیاح وارد ِ کشمیر ہوتے ہیں ۔
یہ سلسلہ نامساعد حالات کے دوران بھی جاری رہا ،حتیٰ کہ عالمگیر وبا کورونا وائرس کے دوران یہاں کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لئے سیاحوں نے اس پیالہ نما وادی کا رخ کیا ۔وہیں ہر موسم میں اہلیان کشمیر کو طرح کی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔
گوکہ انتظامیہ وادی کشمیر میں شعبہ سیاحت کے فروغ کے لئے شہرہ آفا ق ڈل جھیل میں میوزیکل فوارے نصب کررہی ہے اور سمارٹ سٹی منصوبے کے تحت لوہے کے بڑے بڑے کھمبوں پر سکرینز بھی نصب کئے جارہے ہیں ۔تاہم جب بھی وادی میں برف باری ہوتی ہے ، توبرف ہٹانے کے لئے سنو کلیئرنس مشینوں یعنی برف ہٹانے والی مشینوں کی جگہ ٹریکٹر اور بلدوزر استعمال کئے جاتے ہیں ۔
برف ہٹانے والی جدید مشینوں کی بڑے پیمانے پر نمائش تو کی جاتی ہے ،لیکن جب برف ہٹانے کا وقت آتا ہے ،تو ٹریکٹر اور بلڈوزر استعمال کئے جاتے ہیں ۔ متعلقہ محکمہ جات کی میکنیکل انجینئر نگ ونگ کی جانب سے برف ہٹانے کے لئے جدید مشینری تو خریدی جاتی ہے یا نہیں ؟اس کا اندازہ شہر کی موجودہ سڑکوں کی حالت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔سڑکیں خستہ حال یا ناگفتہ بہہ نہیں بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں کھیتوں کی طرح ہل جوتنے کی کوشش کی گئی ہو ۔چند انچ برف ہٹانے کے لئے ناقص منصوبہ سے نہ صرف خزانہ عامرہ پر اضافی بوجھ پڑتا ہے بلکہ عوامی مشکلات کا ازالہ ہونے کی بجائے اور زیادہ اضافہ ہی ہو تا ہے ۔
رابطہ سڑکیں ہنوز بند ہیں ،مواصلاتی نظام بھی درہم برہم جبکہ بجلی ترسیلی نظام کا تو خدا ہی حافظ ہے ۔سالہا سال سے موسم سرما کے دوران چیلنجز سے نمٹنے کے لئے اعلیٰ سطحی میٹنگیں منعقد کی جاتی ہیں اور پھر سرکاری ترجمان کی جانب سے بیان بھی جاری کئے جاتے ہیں کہ موسمی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تمام تر تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں اور تیاریاں ہر تیاری کے بعد ادھوری ہوتی ہے ۔
انتظامیہ کو قدیم روایتی دعوﺅں اور وعدوں کے برعکس اب نمائش سے ہٹ کر منصوبہ بندی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور اُن تمام سرکاری افسران اور محکمہ جات کو جوابدہ بنانا چاہیے ،جو میٹنگیں منعقد کرنے کے بعد تیاریاں مکمل ہونے کے بلند بانگ دعوے کررہے ہیں ۔