محمد وانی: جس نے سرسوں سے تیل نکالنے کے روایتی طریقے کو زندہ رکھا ہے

محمد وانی: جس نے سرسوں سے تیل نکالنے کے روایتی طریقے کو زندہ رکھا ہے

سری نگر/ وادی کشمیر میں جہاں مختلف دستکاریاں جدید طرز زندگی اور جدید ٹیکنالوجی کی آمد کی نذر ہو رہی ہیں وہیں یہاں کے روایتی کارخانے جن میں آٹا، تیل خوردنی وغیرہ تیار کیا جاتا ہے، بھی وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ معدوم ہورہے ہیں۔
تین دہائیاں قبل وادی کے گوشہ و کنار خاص طور پر دیہی علاقوں میں جگہ جگہ پانی سے چلنے والی چکیاں نظر آتی تھیں اور ہر گاؤں میں کم سے کم ایک کولہو جس میں سرسوں سے تیل نکالا جاتا ہے، ضرور موجود ہوتا تھا، لیکن اب یہ سب قصہ پارینہ بن گیا ہے۔
تاہم جنوبی کشمیر کے زعفران کے لئے مشہور قصبہ پانپور کے نملہ بل علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک عمر رسیدہ اور جسمانی لحاظ سے نحیف شخص جدید ٹیکنالوجی کے زور وشور سے قطعی بے تعلق اپنے کولہو میں سرسوں سے خالص تیل نکالنے کے اس روایتی پیشے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
محمد نامی یہ شخص دن بھر بیلوں سے چلنے والے اس تیل کے کارخانے میں کشمیری گیت گنگاتے ہوئے اور بیلوں کے ساتھ باتیں کرتے اور انہیں ہدایات دیتے ہوئے اپنے کام کے ساتھ مصروف رہتا ہے۔
موصوف نے یو این آئی کے ساتھ اپنے گفتگو میں کہا کہ میں آخری سانس تک اپنے آبا و اجداد کے اس پیشے کو زندہ رکھوں گا۔
انہوں نے کہا: ’میں نے اپنی زندگی کے 77 برسوں میں سے 60 برسوں کے شب و روز اسی پیشے کے ساتھ گذارے اور اپنی آخری سانسوں تک اسی کے ساتھ منسلک رہوں گا اور اپنے آبا و اجدا کے اس پیشے کو زندہ رکھوں گا‘۔
محمد وانی کے کمزور جسم اور ہاتھوں کو دیکھتے ہی اس کی محنت و جفا کشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’میں نے اپنی تقدیر کے ساتھ سمجھوتہ کیا ہے میں صبح سے شام تک اپنے کارخانے میں محنت کرکے زیادہ سے زیادہ دو سو روپیے یومیہ کما سکتا ہوں اور اسی پر گذارہ کرتا ہوں‘۔
ان کا کہنا تھا: ’سرسوں سے تیل نکالنے کا یہ روایتی طریقہ عنقریب ختم ہوگا اب میں یہ کام کرنے والا واحد شخص ہوں میرے بعد یہ کام کوئی نہیں کرے گا‘۔
محمد وانی کا ایک بیٹا بھی ہے لیکن وہ اپنے والد کے کام میں ہاتھ بٹانے کی بجائے مزدوری کرکے روٹی کی سبیل کرتا ہے۔
وانی کا کہنا ہے: ’پہلے یہاں کئی ایسے کارخانے تھے لیکن میرے بغیر باقی لوگوں نے روزی روٹی کے لئے دوسرے پیشے اختیار کئے کیونکہ اس پیشے میں رہنے سے گھر کا گذارہ مشکل سے ہی ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہا: ’خریداروں کی آج بھی کوئی کمی نہیں ہے لیکن انہیں تیل حاصل کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا: ’میرے پاس مختلف علاقوں کے لوگ سرسوں لے کر آتے ہیں لیکن انہیں یہاں انتظار کرنا پڑتا ہے کیونکہ چار لیٹر تیل نکالنے کے لئے مجھے کم سے کم تین گھنٹے لگتے ہیں‘۔
وادی کشمیر میں سرسوں سے نکلنے والے تیل کو صرف کھانے کے لئے ہی استعمال نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس کو مختلف امور میں استعمال کیا جاتا ہے اور دیہی علاقوں میں کسان کھیتوں میں کام کرنے کے بعد تھکان دور کرنے کے لئے اس کی مالش بھی کرتے ہیں۔
سرسوں سے نکلنے والے گاد اور تلچھٹ کو مویشیوں کو کھانے کے لئے دی جاتی ہے۔
یو این آئی

Leave a Reply

Your email address will not be published.