اس ملک کی ابتداءسے یہ روایات رہی ہےں کہ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ زندگی گزار کر بغیر کسی رنگ ونسل اور قوم وملت کے آپسی بھائی چارہ ، انسانی ہمدردی اور مذہبی ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں ۔بدقسمتی سے ملک میں گزشتہ چند برسوں سے ایک ہوا چلی ہے کہ لوگوں کو مذہب کے نام پر بانٹا جارہا ہے ۔ ایک دوسرے کے مذہمی معاملات میں داخل اندازی کی جارہی ہے ، اس طرح دشمن کا کام آسان بنایا جارہا ہے ۔
گزشتہ دنوں کرناٹکا کے ایک کالج میں حجاب پہنی ہوئی، ایک لڑکی کے خلاف چند طلباءاحتجاج کررہے تھے اور ڈرس کوڈ تبدیل کرنے کی مانگ کررہے تھے ۔مذکورہ لڑکی نے اللہ ہو اکبرکا نعرہ بلند کرکے سوشیل میڈیا پر اس معاملے کو موضوع بحث بنا دیا ۔ایک طرف سیاستدان اس معاملے پر خوب سیاست کرنے لگے اور دوسری جانب شدت پسند لوگ اس معاملے کو اپنے لئے چیلنج تصور کرنے لگے ، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ملک کو کمزور کرنے کیلئے کیاجارہا ہے ۔ گنگا۔
جمنی تہذیب کے خاتمے کیلئے کیاجارہا ہے اور اس معاملے کو پروپگنڈا کیلئے بطور ہتھیار استعمال کیاجارہا ہے ۔ اس طرح کے معاملات پر غور کرنے کی بے حد ضرورت ہے تاکہ پھر کبھی اس طرح کے معاملات سامنے نہ آئیںکیونکہ ان معاملات سے اس ملک کی یکجہتی کو نقصان پہنچ جائے گا، جو دشمنی کا منصوبہ ہے ۔