ملک کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست اترپردیش سمیت کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا پہلا مرحلہ کل سے شروع ہونے والا ہے اور اس سلسلے میں تمام تر تیاریاں کی گئی ہیں ۔ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں کی نظریں ان انتخابات پر مرکوز ہیں کیونکہ یہاں سے ہی ملکی سیاست اور حکمرانی کا فیصلہ ہوتا ہے ۔اتر پردیش میں جہاں بی جے پی کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی ادھیتہ ناتھ نے اپنے پرچار کے دوران 80فیصد اور 20فیصد کے درمیان ان انتخابا ت کو جنگ قرار دیا ہے، وہیں یو پی کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی سماج وادی کے لیڈر اکھیلیش یادونے زور دار انتخابی مہم چلائی اور اُنکی مدد کیلئے بنگالی دیدی یعنی ممتا بینر جی نے یو پی آکر اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کیا ۔لیکن پھر بھی ان انتخابات کے بارے میں قبل ازوقت رائے قائم کرنا غیر موزون ہے کیونکہ ووٹروں پر کوئی بھروسہ نہیں ہوتا ہے ۔ووٹر کا مزاج آخر میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے ۔آج تک یہی دیکھنے کو ملا ہے کہ اکثر سیاستدان ،بیوروکریٹ اور سرمایہ دار وقت کے حکمرانوں کو ہی سپورٹ کرتے ہیں اور ایسے لوگ چڑھتے سورج کو ہی پوجتے ہیں ۔مختلف پارٹیوں میں رد بدل ہوا اور کئی سابق ایم ایل اے اور سیاسی عہدیداروں نے پھیر بدل کیا اور اس طرح ہر کوئی اقتدار میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے ،مگر حقیقت یہی ے کہ ایسے لوگ پھر سیاست کے میدان سے ہی غائب ہو جاتے ہیں، جو وقت کےساتھ اور ہوا کا رُ خ دیکھ کر اپنی کشتی چلادیتے ہیں۔ہمارے سامنے کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد کی مثال ایک چشم کشا ہے ۔جنہوں نے ہمیشہ کانگریس کےساتھ وفاءکی اور لوگوں کی بھلائی اور بہتری کیلئے کام کیا ۔موجودہ مرکزی حکومت نے بھی اُن کے کام کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ملک کے سب سے بڑے اعزازپدم بھوشن سے نوازا اور گزشتہ برس راجیہ سبھا سے برخاست ہونے پر ملک کے وزیر اعظم شری نریندرا مودی بھی اُن کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے ۔بہرحال اس بات سے یہی اخذ ہو رہا ہے کہ جو سیاست دان لگن، محنت اور ایمانداری سے لوگوں کی تعمیر وترقی اور خوشحالی کیلئے بہ حیثیت ایک لیڈر بغیر کسی لالچ وحرس کے کام کرتے ہیں، انہیں لوگ ہمیشہ تسلیم کریں گے اور اُن کو ہر کوئی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔لہٰذا اترپردیش میں کس نے لوگوں کےساتھ اچھا برتاﺅ اور اچھا کام کیا ہے،وہی مقدر کا سکندر بن سکتا ہے اور اس حوالے سے پہلے مرحلے کے انتخابات سے ہی صورتحال عیاں ہو جائے گی۔ تاہم آخری نتائج کیلئے 10مار چ تک انتظار کرنا پڑے گا ۔