وادی کشمیر میں سیاحت اور ہاٹیکلچر اقتصادی ترقی کے دواہم شعبہ جات مانے جاتے ہیں ،کیونکہ وادی کی تقریباً 60فیصد آبادی میوہ صنعت کےساتھ جڑی ہوئی ہے اور تقریباً 12لاکھ گھرانے اس اہم اور فائدہ مند صنعت سے براہ راست منسلک ہیں ۔گزشتہ 30برسوں کے نامساعد حالات کے باوجود بھی اسی صنعت کی وجہ سے یہاں کے لوگ اپنی روزی روٹی کماتے ہیں، تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ میوہ صنعت بے حد متاثر ہو چکی ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں ۔فروٹ منڈی سوپور کے صدر فیاض احمد ملک کے مطابق اس صنعت سے وابستہ ایسے ہزاروں باغ مالکان ،میوہ فروش اور تاجر بینکوں کے قرض دار ہو چکے ہیں ،جنہوں نے اپنی تجارت کو بڑھاوا دینے کیلئے 3لاکھ کا قرض مختلف بینکوں سے حاصل کیا تھا لیکن وہ صرف سود مشکل سے ادا کرپاتے ہیں جبکہ اصل ز ربقایا ہی رہتا ہے اور کئی لوگوں کے بینک کھاتے ہی اب غیر فعال ہو چکے ہیں ۔اکثر باغ مالکان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران نقلی ادویات اور غیر معیاری کھادو ں کی وجہ سے اُن کی فصلوںکو نقصان پہنچ گیا اور رہی سہی کسر 2017،2018اور 2019کی بے وقت برف باری نے پوری کردی ۔یہاں یہ بات بھی وادی کی میوہ صنعت کیلئے ایک بہت بڑا دھچکہ تصور کیا جا رہا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں ایرانی میوہ جات خاصکر سیب متعار ف ہوئے ہیں، جو ادی کے سیبوں کی نسبت کم قیمت پر فروخت کئے جارہے ہیں کیونکہ ایرانی سرکار وہاں کے با غ مالکان کو سرکاری سطح پر مختلف امداد اور مرعات فراہم کر رہی ہے ۔اسی لئے وہا ں کے کسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو رہا ہے ۔اسکے برعکس وادی کے با غ مالکان کو نہ ہی بہتر اور معیاری ادویات یا کھادیں دستیاب ہیں اور نہ ہی اُنہیں محکمہ ہارٹیکلچر کی جانب سے کسی قسم کی مالی معاونت یاآسان قسطوں پر بینک قرضے فراہم کئے جارہے ہیں ۔سرکار کو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور ایسی اسکیمیں مرتب کرنی چاہیے جن سے اس میوہ صنعت سے وابستہ افراد کو مدد مل سکے اور بیرونی ممالک کے سیبوں کو یہاں برآمد ہونے پر پابندی عائد کرنی چاہیے تب جا کر یہ صنعت جموں وکشمیر کے لوگوں کے لئے فائدہ مند بن سکے گی، جو یہاں کی اقتصادیات کیلئے ریڑھ کی ہڈی تصور کی جا رہی ہے ۔