عارفہ جان: نمدہ سازی کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری خاتون

عارفہ جان: نمدہ سازی کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری خاتون

سری نگر،3  فروری : کشمیر میں تعلیم یافتہ خواتین اپنے دستکاری کے یونٹ قائم کرکے نہ صرف اپنی باعزت روزی روٹی کی سبیل کر سکتی ہیں بلکہ دوسرے لوگوں بالخصوص خواتین کو بھی روز گار فراہم کرسکتی ہیں۔یہ باتیں سری نگر کے لال بازارعلاقے سے تعلق رکھنے والی عارفہ جان کی ہیں جنہوں نے کشمیر کی نمدہ سازی کی صنعت کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرکے اس شعبے میں نئی روح پھونک دی۔موصوفہ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری نوکری کے پیچھے دوڑنے کی بجائے نمدہ سازی کو ہی اپنا مستقل پیشہ بنایا۔انہوں نے یو این آئی کے ساتھ تفصیلی گفتگو میں کہا کہ کرافٹ ڈیولوپمنٹ انسٹی ٹیوٹ سری نگر میں ڈھائی سالہ پروگرام مکمل کرنے کے دوران اپنی روایتی دستکاری کی طرف میری دلچسپی بڑھنے لگی۔انہوں نے  کہا: ’ہمارے یہاں دستکاری کے بے شمار ایسے شعبے ہیں جو نہ صرف زوال پذیر ہیں بلکہ کئی ایسی دستکاریاں بھی ہیں جن کو ہم نے بالائے طاق رکھا ہوا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا: ’ہمارے پاس سونا ہے لیکن ہم نے اس سے چشم پوشی کرکے اس کو کوڑا کرکٹ بنایا ہے جبکہ باہر کے علاقوں میں کاریگر کوڑے کرکٹ کو سونا بنا رہے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ ہم مشینوں کے استعمال سے مختلف ڈیزائنز کے نمدے تیار کرتے ہیں اور مقامی اون کے بجائے قیمتی اور نرم اون استعمال کرتے ہیں۔عارفہ نے کہا کہ میں نے سی ڈی آئی سے پروگرام ختم کرنے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں دیکھا کہ ہماری دستکاریوں کا نہ صرف یہ کوئی ثانی نہیں ہے بلکہ ان کی ڈیمانڈ بھی برابر قائم ہے۔

انہوں نے کہا: ’لہذا میں نے کشمیر کی ہی نمدی سازی کی دستکاری کو جدید ٹیکانوجی سے ہم آہنگ کرکے اس کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی ٹھان لی‘۔ان کا کہنا تھا: ’اپنا یونٹ قائم کرنے کے لئے میرے پاس وسائل نہیں تھے لیکن بعد میں دو شخصیتوں نے میری مالی مدد کی جن میں سے ایک جرمنی کی ایک خاتون تھیں جس سے میری ملاقات دلی میں ایک نمائش کے دوران ہوئی تھی‘۔موصوفہ نے کہا کہ نمدہ سازی کا یونٹ قائم کرکے ہم اپنی روزی روٹی کی سبیل کرسکتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی روزگار فراہم کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا: ’نمدوں کی آج بھی کافی ڈیمانڈ ہے مجھے کافی مقدار میں آرڈرس آتے ہیں اچھی قیمت پر ان کو فروخت کیا جا سکتا ہے اور میں کود بھی اچھا خاصا کماتی ہوں‘۔ان کا کہنا تھا: ’میں نے سال 2012 میں اپنا یونٹ قائم کیا اُس وقت پانچ کاریگر میرے یونٹ میں کام کر رہے تھے آج ان کی تعداد پندرہ ہے اور سو زیادہ خانہ بدوش کنبے بھی میرے یونٹ سے وابستہ ہیں‘۔

عارفہ نے کہا کہ اگر مجھے مالی وسائل دستیاب ہوں گے تو میں کم سے کم ڈھائی سو لوگوں کو روز گار دے سکتی ہوں۔انہوں نے کہا: ’ہماری پڑھی لکھی خواتین کے لئے بہتر ہے کہ وہ سرکاری یا پرائیویٹ نوکریوں کے پیچھے دوڑنے کی بجائے اپنے دستکاری کے یونٹ قائم کریں اور باعزت طریقے سے اپنی روزی روٹی کی سبیل کریں وہ ایسا کرکے دوسروں کو بھی روز گار فراہم کر سکتی ہیں‘۔عارفہ جان کو امسال سٹیٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا اور اس کے علاوہ بھی کئی اعزازات سے انہیں سر فراز کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سرکار کی طرف سے مجھے کوئی خاص مدد نہیں مل رہی ہے میں نے کئی محکموں کی خاک چھانی لیکن آج تک کہیں سے کوئی مدد نہیں ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اس شعبے کی طرف متوجہ ہوگی یہ ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرکے لاکھوں لوگوں کے موثر روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔موصوفہ نے کہا کہ جن لوگوں کے پاس اپنے وسائل ہیں ان کو سرکاری مدد کی بھی ضرورت نہیں ہے وہ اپنے بل بوتے پر یونٹ قائم کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نمدہ سازی ودیگر دستکاریاں ہماری شاندار ثقافت کا حصہ ہیں ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے۔

یو این آئی

Leave a Reply

Your email address will not be published.