ملک کی مختلف ریاستوں میں اگر چہ کورونا وائرس کی تازہ لہر جاری ہے اور روزانہ لاکھوںلوگوں کے ٹیسٹ مثبت آرہے ہیں،تاہم کسی بھی جگہ لاک ڈاﺅن نہیں ہے ۔ملک کے دارالخلافہ دہلی میں بھی اب ویک اینڈ کرفیو کا نفاذ پوری طرح ختم کیا گیا اور اسکول باضابطہ طور کھولنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، مگر بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ جموں وکشمیر میں ویک اینڈ لاک ڈاﺅن کا نفاذ بھی جاری ہے اور اسکول بھی مسلسل تالہ بند ہیں ۔اِدھر دنیا کے بیشتر ممالک نے تما م بندشوں کا خاتمہ کیا ہے یہاں تک بھی سننے میں آیا ہے کہ اب ماسک پہننا بھی لازمی نہیں سمجھا جارہا ہے ۔جہاں تک کورونا وائرس اور اُومیکرون کا تعلق ہے یہ اب ایک عام فلو بن چکا ہے ۔ماہرین صحت بھی اگر چہ اس سے بچنے کیلئے احتیاط برتنے پر زور دے رہے ہیں۔ تاہم گزشتہ ایک ماہ سے وادی کے شہر ودیہات میں اکثر لوگ کھانسی زوکام اور بخار میں مبتلاءہو چکے ہیں اور سبھی لو گ تقریباً صحت یاب بھی ہو چکے ہیں اور بہتر ڈھنگ سے اپنا کا م کاج بھی حسب معمول کرنے لگے ہیں ۔لیکن سرکار اور انتظامیہ کی ازسرنو بند شیں اور لاک ڈاﺅن سے لوگ پھر سے اقتصادی طور متاثر ہونے لگے ہیں ۔گزشتہ روز سرینگر میونسپل کارپوریشن کے افسران اور اہلکاروں نے دکانداروں اور گلی کوچوں میں اپنا روز گار کمانے والے ریڈہ والوں کےخلاف اعلان جنگ کیا ہے ،جس پر عوامی حلقوں میں ناراضگی پائی جارہی ہے ۔آخر وادی میں ہی تمام قسم کے مشکلات عام لوگوں کو کیوں سہنے پڑ رہے ہیں ۔جہاں تک زمینی صورتحال کا تقاضا ہے حالات بہتر ہونے لگے ہیں اور لوگوں کو ہڑتالوں اور تشدد کے واقعات سے نجات ملنے لگی۔ تاہم انتظامی سطح پر جس طرح کے حالات رونما ہورہے ہیں ۔اُن سے عوامی حلقوں میں اعتمادکی بجائے بھروسہ ٹوٹتا جارہا ہے اور لوگ یہ سوچ کر بدظن ہو رہے ہیں کہ کہیں جان بوجھ کر اُن کے ساتھ اس طرح کا سلکوک رواتو نہیں رکھا جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو گہرائی سے جائزہ ینا چاہیے اور لوگوں کی بہتری اور بھلائی کیلئے انتظامیہ کو پابند بنانا چاہیے ۔





