سری نگر/ کورونا وبا نے گذشتہ دو برسوں کے دوران دنیا بھر کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی تمام شعبہ ہائے حیات کو درہم و برہم کرکے رکھ دیا تاہم شعبہ تعلیم سب سے زیادہ متاثر شعبہ رہا۔جہاں تک وادی کشمیر کی بات ہے تو یہاں سال2021 کے دوران تعلیمی اداروں میں مسلسل تیسرے برس بھی درس و تدریس کا عمل معطل ہو کر رہ گیا۔
گرچہ طویل سرمائی تعطیلات کے بعد 26 فروری کو سکول کھل گئے تھے لیکن ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گذرا تھا کہ کورونا وبا نے ایک بار پھر شدت اختیار کی تو متعلقہ حکام کو اسکولوں کو بند کرنے کا حکمنامہ جاری کرنا پڑا۔

حکام نے تعلیم کے شمع کو فروزاں رکھنے کے لئے آن لائن کلاسز کا اہتمام کیا لیکن طلبا کے مطابق یہ عمل موثر ثابت نہیں ہوسکا کیونکہ کئی طلاب ایسے تھے جن کے پاس سمارٹ فون نہیں تھے اور جن آسودہ حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کے پاس سمارٹ فون تھے، ان کی شکایت ہے کہ انٹر نیٹ سہولیات تسلی بخش نہ ہونے سے آن لائن کلاسز ان کے لئے درد سر دبن گئے تھے۔
محکمہ تعلیم نے تعلیمی نقصان کی بھرپائی کے لئے ٹیلی اور ریڈیو کلاسز کا بھی بند وبست کیا لیکن متعلقہ محکمے کی یہ کاوش بھی زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوسکی بلکہ بعض ماہرین اور طلاب نے اس کو سعی لا حاصل ہی قرار دیا۔
ماہرین تعلیم کا ماننا ہے کہ کلاس روم میں استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرکے درس حاصل کرنے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دوسرے جدید ذرائع سے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن تعلیم کا حصول ناممکن ہے۔
محمد علی نامی ایک سینئر استاد نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن کلاسز سے بچے کسی حد تک معلومات حاصل کر سکتے ہیں لیکن کلاس روموں میں درس و تدریس کا عمل بند ہونے سے جس تعلیمی نقصان سے بچوں کو دوچار ہونا پڑتا ہے اس کی بھرپائی کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ تاہم موجودہ صورتحال میں آن لائن کلاسز کا اہتمام ایک مجبوری ہے اور تعلیم کی شمع کو فروزاں رکھنے کی ایک کوشش ہے۔موصوف استاد نے کہا کہ استاد کلاس دینے کے دوران بچوں کو نصابی درس ہی نہیں دیتا ہے بلکہ اپنے ذاتی تجربات اور نصائح سے بھی بچوں کو مالا مال کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بچے کلاس روم میں بیٹھ کر بچے تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی ہوتی ہے جو آن لائن کلاسز سے ممکن نہیں ہے۔محکمہ تعلیم کا کہنا ہے کہ آن لائن کلاسز اور ٹیلی اینڈ ریڈیو کلاسز سے وہ طلبا کے تعلیمی نقصان کی تلافی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
متعلقہ محکمے کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق آن لائن کلاسز اور ٹیلی اینڈ ڑیڈیو کلاسز کے اہتمام سے بچوں کا سیلیبس مکمل کیا گیا جس کے باعث وہ سالانہ امتحانات میں حصہ لے سکے۔انہوں نے کہا کہ جن علاقوں کے طلبا کے لئے آن لائن کلاسز اور ٹیلی اینڈ ریڈیو کلاسز کا اہتمام ممکن نہیں ہوسکا انہیں سٹیڈی مواد فراہم کیا گیا۔
وادی کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں گرچہ درس و تدریس کا عمل کافی حد جاری رہا تاہم طلبا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سلیبس کا پچاس فیصد حصہ ہی مکمل کر سکے۔
وادی کشمیر میں اسکولوں میں درس و تدریس کے عمل کی معطلی کے بیچ جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے دسویں اور بارہویں جماعت کے سالانہ امتحانات کے انعقاد کے لئے ڈیٹ شیٹ جاری کئے۔
وادی میں بارہویں جماعت کے امتحانات کورونا گائیڈ لائنز پر عمل در آمد کے بیچ 9 نومبر سے شروع ہوئے جن میں حصہ لینے کے لئے قریب74 ہزار طلبا نے رجسٹریشن کی تھی۔
بورڈ کی طرف سے دسویں جماعت کے سالانہ امتحانات20 نومبر سے منعقد کئے گئے جن میں حصہ لینے کے لئے قریب 80 ہزار طلبا نے رجسٹریشن کی تھی۔
وادی میں بچوں کے سالانہ امتحانات ختم ہوئے بچوں کی نئی درجہ بندی ہو رہی تھی کہ متعقلہ محکمے نے سرمائی تعطیلات اعلان کر دیا۔

وادی کشمیر میں والدین اپنے بچوں کے مستقل کے متعلق پریشان نظر آ رہے ہیں۔شوکت احمد نامی ایک والد نے بتایا کہ میں نے ایک نجی اسکول بھاری بھر کم رقم ادا کرکے اپنے بچے کا داخلہ کیا لیکن جس دن اس کا داخلہ کیا اس دن سے آج تک اس نے اسکول نہیں دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ میرا بچہ آن لائن کلاسز باقاعدگی سے لیتا ہے لیکن چوبیس گھنٹے گھر میں ہی ہوتا ہے اور وہ اسکول کے تعلیمی ماحول سے محروم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں کو کورونا کو بنیاد بنا کر بند رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ پروٹوکال پر عمل در آمد کرکے انہیں کھولا جا سکتا ہے۔ایک سماجی کارکن ڈاکٹر مدثر حسین نے بتایا کہ امسال وادی میں تمام شعبوں بشمول شعبہ سیاحت نے اپنا کام کاج اچھی طرح سے کیا لیکن شعبہ تعلیم ایک بار پھر مفلوج ہو کر رہ گیا جس کے ہمارے بچوں کے تعلیمی مستقبل پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
یو این آئی





