کشمیر میں ‘دو روزہ قومی سائنس کانگریس’ کا آغاز

کشمیر میں ‘دو روزہ قومی سائنس کانگریس’ کا آغاز

سری نگر/ وگیان پرسار (حکومت ہند) کی جانب سے سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے بہ اشتراک ‘سائنس کی ترسیل، ترویج اور توسیع: امکانات اور مستقبل’ کے عنوان سے بدھ کو یہاں کشمیر یونیورسٹی کے گاندھی بھون میں دو روزہ قومی اردو سائنس کانگریس 2021 کا باضابط طور پر آغاز ہو گیا ہے۔
افتتاحی تقریب میں سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے چانسلر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) سید عطا محمد حسنین نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی جنہوں نے صدارتی خطبہ آن لائن دیا جبکہ ان کے علاوہ افتتاحی تقریب میں ڈائریکٹر وگیان پرسار ڈاکٹر نکل پرشار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اسلم پرویز، موجودہ وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن، کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد، سینٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر معراج الدین میر، یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر محمد افضل زرگر کے اور ڈین اسکول آف میڈیا سٹیڈیز پروفیسر شاہد رسول کے علاوہ دیگر کئی اہم اشخاص نے شرکت کی۔
تقریب کے آغاز میں پروفیسر شاہد رسول نے خطبہ استقبالہ پیش کرتے ہوئے مہمانان کا استقبال کیا اور انہوں نے مقررہ موضوع پر مختصر روشنی ڈالی۔
تقریب سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے چانسلر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹارڈ) سید عطا محمد حسنین نے کہا کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں بیرون ممالک کی ترقی صرف سائنسی تحقیقات سے ہی ممکن ہو سکی ہے۔
انہوں نے اسرائیل، جاپان اور چین کے علاوہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان ممالک کی ترقی صرف سائنسی تحقیق سے ہی ممکن ہو سکی ہے۔
جموں کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے چانسلر نے کہا کہ جموں و کشمیر خاص طور پر وادی، قدرتی آفات اور موسمی تبدیلی کے چیلنجوں کے لئے بہت مشہور ہے لیکن یہاں عوام میں اس سے متعلق بیداری کم ہے۔
انہوں نے موسمی تبدیلی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے زیادہ سے زیادہ بیداری مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ہم سیلاب اور دیگر ناگہانی آفات سے بچنے کے لئے پہلے ہی تیار رہیں۔
عطا حسنین نے کہا کہ اردو زبان 100 ملین لوگوں کی زبان ہے جس میں سائنسی مواد کو دستیاب بنانا ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا: ‘یہ وہ زبان ہے جس میں سننا کانوں کو اچھا لگتا ہے۔ اگر انسان کو ترقی کرنی ہے تو وہ سائنس کے بغیر ناممکن ہے۔ لہٰذا اردو میں بھی سائنس مواد کی دستیابی ناگریز ہے’۔
چانسلر نے کہا کہ میں اس تقریب کے انعقاد پر بہت خوش ہوں کیوں کہ یہ کووڈ لاک ڈائون کے بعد سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کی جانب سے منعقدہ پہلی بڑی تقریب ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا: ‘میں سمجھتا ہوں کہ شرکا کا تقریب میں جسمانی طور پر شرکت کرنا مابعد کووڈ نارملسی کی طرف اشارہ ہے’۔
اردو نیشنل یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اسلم پرویز نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر ایک کو اپنے حصے کا چراغ جلانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا: ‘مسئلے بہت ہوتے ہیں اور مسئلے پیدا کرنے والے بہت ہوتے ہیں لیکن ہمیں حل فراہم کرنے والا بننا چاہیے۔ مجھے اردو میں سائنسی مضامین لکھتے لکھتے 39 سال ہو چکے ہیں’۔
پروفیسر پرویز اسلم نے سامعین سے مخاطب ہو کر کہا کہ کچھ زکواۃ اپنے علم کی بھی نکالیں۔
ان کا کہنا تھا: ‘کچھ عام لوگوں کے لئے بھی لکھیں۔ ہم مستقل طور پر لڑتے رہیں گے۔ کبھی تو صبح ہوگی۔ آپ سے بھی گزارش ہے کہ اپنے حصے کا کام آپ بھی کریں۔ سائنس کے جس مضمون کو جانتے ہیں اس کو اردو میں لکھیں’۔
تقریب سے کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سائنسی تحقیق کے لئے ہمیں بچوں کو اسکولی سطح پر ہی تیار رکھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اردو میں سائنس کی ترویج اور فروغ کے لئے کشمیر یونیورسٹی کی جانب سے ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے گا اور اس بات پر زور دیا کہ اردو میں سائنس کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مادری زبان یعنی کشمیری میں بھی یہ پہل کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم اس کے لئے پہل کریں گے۔
پروفیسر طلعت احمد نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ آپ سائنسی مضامین آسان اردو میں لکھیں۔انہوں نے کہا: ‘اگر آپ کوئی تکنیکی لفظ لکھ رہے ہیں تو اس کو ساتھ میں مگر بریکٹ میں انگریزی میں بھی لکھیں’۔
قومی سائنس کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے سینٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر معراج الدین میر نے خطاب کرتے ہوئے کانفرنس کے انعقاد کو تاریخی اور یونیورسٹی کے لئے انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ ہمیں بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ کووڈ لاک ڈاﺅن کے بعد ہمیں اس طرح کی کانفرنس منعقد کرانے کا موقعہ ملا۔
انہوں نے سنیٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے عملے اور دیگر ان کی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ ان ہی کی کاوشوں کے بدولت سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر آج 13 یونیورسٹیوں میں سے اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
سائنس کانگریس کے بارے میں تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر معراج الدین میر نے کہا کہ میرا یہ ماننا ہے کہ جو قدرتی ہے وہی سائنسی ہے اور جو سائنسی ہے وہی قدرتی بھی ہے۔
ساتھ ہی یہ بات بھی دہرائی کہ جس طرح سے ہم سائنس کو اردو میں فروغ دینے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں اسی طرح سے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ سائنس کو کشمیری زبان میں بھی فروغ ملے۔
پروفیسر معراج الدین میر نے کہا کہ کہ پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص اردو میں پیش کی جائے تو اس سے اردو میں سائنسی ترکیبوں کا اضافہ ہوگا۔اس کے بعد دانشوروں کے ہاتھوں تین کتابوں کی رسم اجرا عمل میں آئی۔ یہ تینوں کتابیں اردو میں سائنسی موضوعات پر مشتمل تھیں۔
اسی دوران ڈاکٹر نکل پرشار ڈائریکٹر وگیان پرساد نے کہا کہ 11 اکتوبر 1989 کو تنظیم کے قیام کا مقصد سائنس کو عام لوگوں تک پہنچانا ہے اور ہمیں اس سفر کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ وگیان پرسار میں بھی پہل کریں گے تاکہ کشمیریوں کے لئے سائنسی لٹریچر کو کشمیری زبان میں دستیاب کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر اور یونیورسٹی آف کشمیر کے ساتھ مل کر کام کرے گی تاکہ سائنس کے علم کو دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے دستیاب کیا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.