افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار مرزاکوال کا کہنا ہے کہ طالبان کے کابل پہنچنے کے بعد اقتدار پرامن طریقے سے منتقل ہو گا اور اس کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ طاقت یا جنگ کے زور پر شہر میں داخل نہیں ہوں گے۔
طالبان نے افغانستان میں طورخم بارڈر کا کنٹرول سنبھال لیا
آئی ایس پی آر نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کے ننگرھار پر قبضے کے بعد طورخم بارڈر بند کر دیا گیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم بارڈر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق طالبان نے افغانستان کی جانب سرحد کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا ہے اور وہ جگہ جگہ اپنا سفید پرچم لہرا رہے ہیں۔
اس دوران بارڈر پر تعینات افغان فورسز نے زیادہ مزاحمت نہیں دکھائی تھی اور اپنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
بارڈر پر موجود پاکستانی عہدیداران نے بتایا ہے کہ سرحد بند ہے اور وہاں تجارتی گاڑیوں کی ایک بڑی قطار دیکھی جاسکتی ہے۔ طالبان نے نقل و حرکت کے حوالے سے فی الحال پابندی عائد نہیں کی اور یہ پابندی پاکستان کی طرف سے ہے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکام نے کابل میں صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور وہ جلد سرحد کھولنے یا نہ کھولنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے۔
سرحد پر اس وقت افغان شہریوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں تازہ صورتحال کے بعد افغان پناہ گزین کی آمد کے حوالے سے حکومت نے لائحہ عمل طے نہیں کیا ہے۔ عام حالات میں افغان پناہ گزین کی پاکستان آمد کے لیے پاسپورٹ، مہاجر کارڈ اور دیگر دستاویزات درکار ہوتے ہیں۔ فی الحال یہ واضح نہیں کہ آیا نئے پناہ گزین کو بھی پاکستان آنے دیا جائے گا۔
یاد رہے اس سے قبل افغان طالبان نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن بارڈر پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
پاکستان سیاسی سمجھوتے کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا: ترجمان دفترِ خارجہ
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کا کہنا ہے کہ ’پاکستان افغانستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان سیاسی سمجھوتے کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔‘
ترجمان کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ تمام افغان فریق اس اندرونی سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔
کابل میں پاکستان کا سفارت خانہ پاکستانیوں، افغان شہریوں اور سفارتی اور بین الاقوامی برادری کو قونصلر کے امور اور پی آئی اے کی پروازوں کے ذریعے تعاون اور ضروری مدد فراہم کر رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ سفارتی عملے، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، بین الاقوامی تنظیموں، میڈیا اور دیگر کے لیے ویزا/آمد کے معاملات کو آسان بنانے کے لیے وزارت داخلہ میں ایک خصوصی بین وزارتی سیل قائم کیا گیا ہے۔
ٹائم لائن: طالبان کی برق رفتار پیش قدمی
طالبان نے افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کے بعد کابل کے علاوہ تمام بڑے شہروں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
آئیے ذرا پیچھے مڑ ان کی برق رفتار پیش قدمی پر نظر ڈالتے ہیں:
- اپریل: امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکی فوجی مئی سے لے کر 11 ستمبر کے دورانیے میں افغانستان سے نکل جائیں گے، جس سے امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
- مئی: طالبان نے جنوبی صوبہ ہلمند میں افغان فورسز پر ایک بڑا حملہ شروع کیا، اور دوسرے صوبوں میں بھی حملہ کیا۔
- جون: افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی کا کہنا تھا کہ طالبان نے 370 اضلاع میں سے 50 سے زیادہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان نے جنوب میں اپنے روایتی گڑھوں سے دور شمال میں حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔
- 21 جولائی: ایک سینئر امریکی جنرل کے مطابق طالبان ملک کے تقریباً نصف اضلاع پر قابض ہیں۔
- 6 اگست: عسکریت پسندوں نے جنوب میں زرنج پر قبضہ کیا، جو کہ ایک سال میں ان کے قبضے میں آنے والا پہلا صوبائی دارالحکومت ہے۔
- 13 اگست: ایک دن میں طالبان نے مزید چار صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا، جن میں ملک کا دوسرا شہر قندھار بھی شامل ہے۔
- 14 اگست: طالبان نے شمالی شہر مزار شریف پر قبضہ کر لیا۔
- 15 اگست: طالبان نے بغیر کسی لڑائی کے مشرقی شہر جلال آباد پر قبضہ کر لیا اور کابل کو گھیر لیا۔
طالبان کی نفسیاتی جنگ
اتھیراجن انبراسن، بی بی سی ورلڈ سروس

جب سے طالبان جنگجو کابل کے گرد و نواح میں پہنچے ہیں تب سے دارالحکومت کے شہری خوف میں مبتلا ہیں۔ سرکاری دفاتر خالی کرا لیے گئے ہیں اور دکانیں بند ہوچکی ہیں۔ حکومتی سطح پر اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
کابل کے ساتھ موجود شہروں پر قبضے کے بعد یہ واضح تھا کہ طالبان اب کابل کو ہدف بنائیں گے۔ یہ واحد بڑا شہر تھا جہاں حکومت کو کنٹرول حاصل تھا۔
ممکنہ طور پر کئی جنگجو پہلے سے کابل داخل ہوچکے تھے یا کابل کے اندر ہی رہائش پذیر تھے۔
فوجی حکمت عملی کے اعتبار سے ان کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ کابل میں لڑائی کی صورت میں بہت زیادہ خونریزی ہوگی اور شہریوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ طالبان یہ جانتے ہیں اور وہ عالمی برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اب بدل چکے ہیں۔
انھوں نے ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں اور حکومتی اہلکاروں کو باحفاظت نکلنے کی اجازت دی ہے۔ افغان فوج کے خلاف ان کی نفسیاتی جنگ اب تک کامیاب رہی ہے۔ کئی صوبے تو بغیر لڑائی کے ان کے قبضے میں آگئے تھے۔
کابل میں جہاں مغربی شہری ملک واپسی کی کوششیں کر رہے ہیں تو وہاں ممکن ہے کہ طالبان یہی کھیل کھیلیں گے۔
طالبان پہلے ہی یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلا سے انھوں نے دنیا کی سپر پاور کو شکست دے دی ہے۔
مقامی رہنماؤں کا یہ سوچنا کہ وہ امریکی اور برطانوی شہریوں کی وطن واپسی میں معاونت کر سکتے ہیں اور اس سے انھیں پروپگینڈا کی سطح پر بڑی فتح حاصل ہوگی، حیران کن نہیں۔
کابل کے شہری ’پہلے کبھی اتنے پریشان نہیں ہوئے‘

کابل میں بی بی سی کے ایک رپورٹر نے شہر کا حال بیان کا ہے: بہت سی دکانیں اور بازار بند ہیں اور کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ ’پہلے کبھی اتنے پریشان نہیں ہوئے۔‘
کچھ سرکاری دفاتر بھی بند ہیں اور فوج اور پولیس اپنی اپنی جگہوں سے اپنی ڈیوٹی پوسٹس چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
کچھ علاقوں میں گولیاں چلنے اور چھوٹے دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔
ایسی افواہیں آن لائن گردش کر رہی ہیں کہ طالبان کابل میں داخل ہو گئے ہیں۔ تاہم طالبان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں کو کہا گیا ہے کہ وہ شہر کے دروازوں پر رہیں اور حملہ نہ کریں۔
بریکنگافغانستان کی صورتحال پر برطانوی پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے برطانوی پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی صورتحال پر ہنگامی اجلاس منعقد کرے۔
برطانوی وزیر اعظم کے دفتر کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ملاقات کی تاریخ اور وقت ابھی طے نہیں کیا گیا ہے۔
طالبان کی کابل ’آمد‘ پر بین الاقوامی ردعمل

پاکستان میں دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمیں افغانستان میں بگڑتی صورتحال پر تشویش ہے۔ ہم نے تاحال سفارتخانہ بند کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔‘
آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ’علاقے میں لڑائی اور عدم استحکام آج نہیں تو کل یورپ اور پھر آسٹریلیا میں بھی داخل ہوسکتا ہے۔‘
یورپی یونین کے کمشنر نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’اب وقت گزر ہوچکا ہے کہ ہم یورپ میں پناہ گزین اور پناہ لینے کے حوالے سے قوانین میں رد و بدل کریں۔‘
’کابل میں ہسپتالوں اور ایمرجنسی سروسز کو نہیں روکا جائے گا‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان حکام نے کہا ہے کہ کابل طالبان کے گھیرے میں ہے مگر ایئر پورٹ کو کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ غیر ملکی افراد کو ملک چھوڑنے کی اجازت ہے یا آئندہ دنوں میں وہ اپنی موجودگی کا اندراج طالبان انتظامیہ کے ساتھ کرا سکتے ہیں۔
طالبان اہلکار نے بتایا ہے کہ کابل میں ہسپتالوں اور ایمرجنسی سروسز کو کام کرنے سے نہیں روکا جائے گا۔
طالبان افغانستان کے کن کن علاقوں پر قابض ہو چکے ہیں اور کہاں لڑائی جاری ہے؟
نقشے کی مدد سے جانیے کہ افغانستان کے کن کن علاقوں پر طالبان قابض ہو چکے ہیں اور کہاں کہاں لڑائی جاری ہے۔
طالبان نے بگرام ائیر بیس کی جیل سے قیدیوں کو رہا کر دیا
طالبان نے کابل کے مضافات میں واقع بگرام ائیر بیس کی سب سے بڑی جیل سے قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔
کل رات افغان حکومت کے حکام کا کہنا تھا کہ بگرام جیل مکمل کنٹرول میں ہے۔
تاہم اب سے کچھ دیر قبل افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے بگرام ائیر بیس کی سب سے اہم جیل پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
ٹویٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ تمام قیدیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
حالیہ دنوں میں طالبان نے صوبائی دارالحکومتوں میں داخل ہونے کے بعد قیدیوں کو رہا کیا ہے۔
کابل کے بینکوں کے سامنے شہریوں کی لمبی قطاریں
افغان وزارت داخلہ نے دارالحکومت کابل میں طالبان کی آمد کی تصدیق کی ہے، شہر میں بہت سے لوگ پیسے نکالنے کے لیے بینکوں کی برانچوں کے سامنے قطاروں میں کھڑے ہیں۔
کابل میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ کئی بینکوں کے پاس پیسے نہیں ہیں اور بینک میں اکاؤنٹس رکھنے والے لوگ بینکوں سے نقد وصول کرنے سے قاصر ہیں۔
اشرف غنی کی خلیل زاد اور نیٹو کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ہنگامی ملاقات
اطلاعات کے مطابق افغان صدر محمد اشرف غنی نے افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اور نیٹو کے ایلچیوں کے ساتھ ایک ہنگامی ملاقات کی ہے۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ کابل کے دروازے پر پہنچ چکے ہیں۔
طالبان نے آج صبح ایک بیان جاری کرتے ہوئے کابل کے شہریوں کو یقین دلایا کہ وہ شہر میں داخل نہیں ہوں گے اور اقتدار کی منتقلی پرامن ہوگی۔
دریں اثنا غیر مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ طالبان کا ایک وفد مذاکرات کے لیے صدارتی محل میں داخل ہو چکا ہے۔
کابل ایئر پورٹ سے پروازوں کی آمد و رفت کا سلسلہ رُک گیا
کابل میں موجود بی بی سی کے نمائندے کے مطابق کابل ایئر پورٹ پر پی آئی اے کی پرواز پی کے 250 ایک گھنٹے سے کھڑی ہے جسے اڑنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
فلائٹ ریڈار کے ڈیٹا کے مطابق دہلی اور دبئی سے آنے والی دو پروازیں جنھیں کابل کے ہوائی اڈے پر لینڈ کرنا تھا وہ ابھی تک ایئر پورٹ کے اوپر ہی چکر لگا رہی ہیں۔
طالبان وفد صدارتی محل پہنچ گیا
افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کا ایک وفد اقتدار کی منتقلی پر مذاکرات کے لیے افغان صدارتی محل پہنچا ہے۔
افغان حکومت کے حکام نے ابھی تک ان رپورٹس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اس سے قبل طالبان نے ایک بیان میں طالبان نے اقتدار کی پُرامن منتقلی پر زور دیا تھا۔
افغان صدر اشرف غنی کی حکومت پر دباؤ، ہنگامی اجلاس طلب
اطلاعات کے مطابق طالبان کی کابل آمد کے بعد افغان صدر اشرف غنی، امریکی نمائندے خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور نیٹو حکام کے مابین ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
سنیچر کو طالبان پیش قدمی میں تیزی پر صدر غنی نے تسلیم کیا تھا کہ ملک ’خطرے میں ہے۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ افغان فوج کی تنظیم نو ان کی اولین ترجیح ہے۔
تاہم اطلاعات کے مطابق مسلح جنگجوؤں کو کابل پہنچنے میں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مقامی رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد طالبان نے لڑائی کے بغیر مشرقی شہر جلال آباد پر قبضہ کیا اور اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ وہ کابل داخل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
حکومتی فورسز کی ناکامی پر صدر اشرف غنی سے استعفی لینے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ امریکہ نے کابل میں اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کی واپسی کے لیے مزید پانچ ہزار فوجیوں کی تعیناتی کی ہے۔
روس کا کابل میں سفارتی عملہ واپس نہ بلانے کا فیصلہ
روس نے کہا ہے کہ وہ فی الحال کابل میں اپنی سفارتی عملے کو واپس بلانے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتے۔
افغانستان میں طالبان پیش قدمی میں تیزی دیکھی گئی ہے اور مسلح جنگجو اب دارالحکومت کابل میں داخل ہو رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ملک افغانستان میں اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کی واپسے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
مگر روس کے دفتر خارجہ کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے انٹرفیکس کو بتایا ہے کہ وہ ’کابل میں ماسکو کے سفیر سے براہ راست رابطے میں ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ روس کا سفارتی عملہ ’پُرسکون ماحول‘ میں کام کر رہا ہے اور فی الحال ان کا ’واپسی کے لیے کوئی منصوبہ تشکیل نہیں دیا گیا۔‘
افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات جاری ہیں: طالبان
طالبان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ افغانستان میں اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات جاری ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی بی بی سی پشتو ویب سائٹ کو تصدیق کی ہے کہ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ثالثی کر رہے ہیں۔
انھوں نے ان خبروں کی بھی تردید کی کہ گروپ کے پولیٹیکل بیورو چیف ملا برادر کابل پہنچے ہیں۔
افغان حکومت نے ابھی تک طالبان کے تبصرے پر کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے۔