امریکا کا پاکستان، بھارت پر براہ راست مذاکرات کیلئے زور

امریکا کا پاکستان، بھارت پر براہ راست مذاکرات کیلئے زور

امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کے فیصلے پر تبصرے سے انکار کیا، تاہم اس کا کہنا تھا کہ دونوں پڑوسی ممالک کو تعلقات معمول پر لانے کے لیے براہ راست مذاکرات کرنے چاہیے۔

میڈیا رپورٹس  کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس پیشرفت سے متعلق سوال پر کہا کہ ‘میں خاص طور پر اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گا، میں یہ کہوں گا کہ ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان تشویش کے امور پر براہ راست مذاکرات کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں’۔

کمیٹی نے جون سے بھارت سے کپاس درآمد کرنے کی تجویز بھی منظور کر لی تھی۔تاہم یکم اپریل کو وفاقی کابینہ نے اس وقت تک بھارت سے تجارت کرنے کے ای سی سی کے فیصلے کو مؤخر کردیا تھا جب تک نئی دہلی اپنے آئین کا آرٹیکل 370 بحال نہیں کرتا، جو  جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی ضمانت دیتا ہے۔

پاکستان نے نئی دہلی کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اعلان کے بعد اگست 2019 میں بھارت سے دوطرفہ تجارت معطل کردی تھی۔

بھارت سے تجارت بحال کرنے کا حالیہ فیصلہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان کئی ماہ کی کشیدگی کے بعد لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر پر اتفاق کے بعد سامنے آیا تھا۔

اس اقدام نے ان امیدوں کو دوبارہ زندہ کردیا تھا کہ جوہری طاقت رکھنے والے دونوں پڑوسی ممالک تعلقات معمول پر لانے کے لیے چھوٹے چھوٹے اقدامات لینا شروع کریں گے۔

سال 19-2018 میں پاکستان اور بھارت نے صرف 49 کروڑ 48 لاکھ ڈالر سے زائد کی باہمی تجارت کی تھی جس کا زیادہ تر حصہ بھارت کے فائدے میں رہا تھا۔

محکمہ خارجہ کی بریفنگ میں نیڈ پرائس نے بائیڈن انتظامیہ کی اس خواہش پر بھی زور دیا کہ امریکا، افغانستان سے فوجی انخلا چاہتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیا واشنگٹن اس کے لیے یکم مئی کی ڈیڈ لائن پر عمل کرے گا یا نہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے گزشتہ سال فروری میں طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے مطابق واشنگٹن کو یکم مئی تک افغانستان سے فوجی انخلا مکمل کرنا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے بھی اس معاہدے کو قبول کیا تھا لیکن وہ ڈیڈ لائن پر عملدرآمد میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔نیڈ پرائس نے کہا کہ ‘ہم تنازع کے ذمہ دارانہ خاتمے کے لیے پرعزم ہیں جس میں ہماری فوج کا انخلا بھی شامل ہے لیکن یہ اس یقین دہانی کے بغیر نہیں ہوگا کہ افغانستان دوبارہ کبھی امریکا یا اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گردوں کے حملوں کے لیے لانچ پیڈ نہیں بنے گا’۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.